* اتار پھینکا جو میں نے انا کا، آن کا *
غزل
یاور ماجد
اتار پھینکا جو میں نے انا کا، آن کا وزن
اُتر گیا مرے کندھوں سے دو جہان کا وزن
بہت ہے ثقلِ زمیں اور میرے پر نازک
سنبھال پائیں گے کیسے مری اُڑان کا وزن
گزاری عمر یونہی شک کی دُھول میں دب کر
پنپ نہ پایا یقیں اِتنا تھا گُمان کا وزن
میں آج ہوں زدِ طوفاں، گھرا ہوں بیچ بھنور
اور اُس پہ توڑے مری کشتی بادبان کا وزن
گھُٹن سے کیسے نہ برسیں، زمین پر بادل
اُٹھائے بیٹھے ہیں اِتنا جو آسمان کا وزن
یہ دیکھو کونوں سے کچھ گھاس آ گئی باہر
نمودِ زندگی روکے گا کیا چٹان کا وزن
اُٹھاؤ، دل سے اُٹھاؤ، کبھی جیو کھُل کر
نہیں کچھ ایسا بھی بے کار جسم و جان کا وزن
شکار شعر کے پنچھی کا کیا کروں یاور
کہ میرے تیر سے کم ہے مری کمان کا وزن
*************** |