donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Yawar Maajed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* وہ اور میں ۔ منظوم دیباچہ زید سے مک *
وہ اور میں



محترم انکل آفتاب اقبال شمیم کی کتاب زید سے مکالمہ کا دیباچہ
جسے انہوں نے لکھا اور میں نے منظوم کیا
یاور ماجد


ہمارے دور کی اس نظم ِبے آخر کا یہ اِک اقتباس ِچند منظر ہے
کہ جس کی وجہِ پیدائش
کسی جغرافیے یا پھر کسی بھی خاص خطے سے کوئی ناطہ نہیں رکھتی
اگرچہ یہ ہمارے دور کی تہذیب کی جہتوں
ہمارے کنج ہائے ذہن کے پردہ سرائے نفس کے منظر دکھاتا ہے؛

یہ ایسی نظم ہے جو لمحہءِ موجود کی اصلیتوں کے خارج و داخل کے منظر
اور صدا کو پیش کرتی ہے
بجائے رزمیے کے المیے کی داستانِ خونچکاں تالیف کرتی ہے
ہمارے دور میں ابلیس یا تبریس یا سہراب جیسے سورماؤں کی مذمت میں جو لکھیں بھی تو کیا لکھیں
ہماری آنکھ سے تاریخ کے پردے اٹھے تو
ہم نے رومانی روّیوں کے گلستاں کو جلا کر راکھ کر ڈالا

ارسطو ہو یا رومی ہو
خدا ہو یا کہ پرمیشر !
ہماری ہی وراثت ہیں
کہ صدیوں کے عمل نے اور تو کچھ ہو نہ ہو
ہم کو شعور زِندگی بخشا ہے
ہم انسان کو خطوّں میں کیسے منقسم کر دیں
کہ ہم مرکز ہیں اور فطرت زمین اور زِندگی گویا ہمارے دائرے ہیں
پس ِآئینہ کیا معلوم جانے کیا حقیقت ہے
مگر تا حال تو صدیوں پہ پھیلے واقعوں کے موڑ ایسا ہی بتاتے ہیں
کہ انسان بے کنارہ وسعتوں کے بحر میں گم ،
زمانوں کی ہواؤں کے بہاؤ میں
اکیلا زِندگی کی ناؤ پر بہتا رہا ہے !
بظاہر تیرگی کے بے سروپا اور نابینا سفر میں موت کے آگے مکمل طور پر تنہا کھڑا گویا خود اپنے آپ کے مدِّمقابل ہے
اسے کچھ کچھ شعورِ زندگی بھی ہے
ہزاروں مسئلے ہیں اور موجودات کا خود سے تصادم بھی
تو کیا اپنے تضادوں میں کسی دن
خود کو ہی پامال کر دے گا ؟
تو کیا اِک ہیچ اور بے جان عنصر کی طرح
صدہا عناصر کے ازل سے تابہ محشر تجربے کا حصہ ٹھہرے گا ؟
یا اپنے آپ سے ہی ماورا ہونے کا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تو کیا پھر زندگی انسان سے بڑھ کر کہیں افضل، مکمل تر، کوئی مخلوق پیدا کر دکھائے گی؟

مگر میں دیکھتا ہوں اشرف المخلوق میں امکان کے مثبت اشارے ہیں
کہ وہ خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے

ذرا مڑ کر تو دیکھو!
بستیاں پامال کرنے والے وحشی سورما کا نام پاتے تھے ،
مگر اب ہم شعور زِندگی رکھتے ہیں ، ان کو قابل ِنفرت سمجھتے ہیں
وہ استبداد و استحصال جو کل تک ہمارا بے بدل مقسوم ٹھہرا تھا
ابھی بھی ہے
مگر اب سارے مظلوموں پہ یہ احساس حاوی ہے
کہ جور و جبر جو کل تک اٹل تھا
اور لازم تھا
اسے وہ ٹال سکتے ہیں
انہیں ہر حال میں اس کو مٹانا ہے
انہیں اب آدمیت کی نئی قدریں بنانا ہیں

ہمیں ادراک ہے
ان نشہ آور فلسفوں ، افیوں فروشوں کی ثقافت
کے پلے بیجوں سے صرف اِک عالمی نفرت کی پیلی فصل اگتی ہے
ہمیں خوابوں کے بافندے بنایا جا رہا تھا
ہم انہی کی لوریوں سے نیند کی وادی میں پہنچے تھے
مگر ہم جاگ اٹھے ہیں !

ہم اپنی نیم وا آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے مندر میں رکھی مورتی کی غیبی قوت مشتہر کرنے پہ آخر کون بیٹھا ہے

یہ ہم جو جبر کے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہیں !
ہماری گردنوں سے قطرہ قطرہ سرخ جیون بہہ رہا ہے
ہمیں ادارک ہوتا جا رہا ہے زور آور کی سیاست کا !
مفاد اس کا جو اس کے حکم کی تحریر بنتا ہے
وہی پھر نسل بعدِ نسل کی تقدیر بنتا ہے

یہ مانا اب حقیقت روشنی بن کر
ہماری سوچ پر افشا تو ہونے لگ پڑی
لیکن
حقیقت خود معمہ ہے !
یہ رومانی روّیہ تو بڑا آسان ہے شیشے کو گہری سانس
سے دھندلا کے جو چاہیں وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں !
یہ گہری سانس ظاہر میں کئی خوشیوں بھرے منظر دکھاتی ہے
تو باطن میں کئی پردے گراتی ہے
مگر ایسے عمل میں ہم نے یہ ادراک پایا ہے !
کہ کوئی اخذ و حاصل آخر ی حاصل نہیں ہوتا
کوئی بھی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا

یہ ہم فکر و تصور سے معانی کا جو تانا بانا بنتے تھے
کبھی بھی زِندگی کی جامعیت تک نہیں پہنچا
ہمارے اس عمل نے لاشعوری
اور شعوری فاصلوں کو اور زیادہ وسعتیں بخشیں
سزاؤں ، دھمکیوں ، پندو نصائح کی بٹی رسی کی جِنبش پر
ہمیں چلنا بھی آیا
اور ہم فطرت اکائی سے الگ ہوکر
کئی اشیا کی منڈی اور کلیسا اور دو دنیاؤں کے مہمل سفر میں کے سفر میں کھو گئے آخر

چلو آؤ ناں
سادہ اور آساں زِندگی کی راہ پر چل دیں !
مٹا دیں فرق ادنیٰ اور اعلیٰ کا، 
اکھاڑیں جڑ سے وہ اشجار جن پر جبر و استحصال کے پھل کے علاوہ کچھ نہیں اگتا

سبھی کو اپنے دردِ مشترک کا، المیے کے اصل کا ادراک دیں تاکہ
ہر اک تنہا اکائی اصل کی پہچان کے دھارے میں قطرے کی طرح ڈھل جائے
اور خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے

تو کیا ازحد ضروری ہے کہ صدیوں کا پرانا خون کا اور آگ کا ناٹک یونہی پیہم رہے جاری؟
تو کیا از حد ضروری ہے غلامی، مفلسی اور بےبسی کا کوڑھ پھیلانے کو لالچ کے گٹر میں مستقل زرمُوش کی ہی پرورش کی جائے؟
کیا ازحد ضروری ہے یہ سب چلتا رہے یونہی؟
کسی بھی فرد میں موجود اس کی جنس ہی تو قوتِ تخلیق ہوتی ہے
اسی کے گلستانوں میں بقا کا خواب پلتا ہے
اسے آخر سمٹ کر چلنے کا پابند کیوں کر دیں
سخاوت اور احساں ہی تو وہ انصاف ہے
جو زِندگی ہم سے طلب کرتی ہے
کیا ممکن نہیں ایسا کہ یہ انصاف کر کے نوع ِہستی کو بدل ڈالیں

یہ سب امکان کی حد میں ہے، کل کی دسترس میں ہے

میں ڈرتا ہوں !
میں اپنے ہی گریباں میں بھلا کیا جھانک کر دیکھوں
یہاں اب تک رفو کا بے تحاشا کام باقی ہے !

یہاں تو اب تلک شخصی حکومت چل رہی ہے
یہاں ابلاغ عامہ کا جو اسرافیل ہے
وہ جاگتوں کو بھی سلانے پر لگا ہے
یہاں انسان کو پیہم ہی نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
یہاں تو مرد نے
بے چاریوں کی ذمہ داری تک بھی جبراً پاس رکھی ہے

یہاں ایسا بھی طبقہ ہے
امیر شہر کو جو کج کلاہی کے سبھی تیور سکھاتا ہے
اسی طبقے کی حکمت اور حکومت اس جگہ موقع پرستی ، دوغلے پن کی
نہایت حوصلہ افزائی کرتی ہے

ثقافت جب کلیشے اور نابینائی کے سینچے ہوئے جذبات سے بنتی ہو
تو پائے گدائے لنگ کے مانند بے ساکھی پہ چلتی ہے
گدا کی خانقاہوں کو بڑا کرنے کا جذبہ تھم نہیں پاتا
یہاں آنکھوں کا بھینگا پن نہیں جاتا

یہاں ایذا پرستی ، دکھ اٹھانے کا تلذ ّذ کس طرح جائے
کہ یہ آزار تو ان کی وراثت ہے
یہ سب صدیوں کی تنبیہہ و سزا کے باوجود
اپنی وراثت کے نشے میں مست رہتے ہیں !
مری ساری امیدوں کا
مگر !
محور یہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہی ہیں وہ جو اس کے دِل میں کانٹے کی طرح چبھہ کر
اسے وحشت دلاتے ہیں
میں خود بھی اس قبیلے میں بصد اعزاز شامل ہوں

میں اپنی زِندگی کے آئینہ خانے میں
عکسوں کے عجب الجھاؤ میں رہتا ہوں
یہ تاریخ کیا ہے
یہ عناصر اور وقت اپنی حقیقت میں بھلا کیسی قیامت ہیں
میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں
جو دور صدزماں سے بے تغیر چل رہا ہے

اسی انبوہ کا اِک فرد ہے
جو مجھ میں بیٹھا میرے نوحے میرے نالے سن رہا ہے
اور جو فطرت میرے باہر میرے اندرہے
اسی کا عکس ہوں میں بھی !
ثمر ہوں ایسی مٹی کا جسے دھوپوں نے گرمی میں پکایا ہے !
میں اس تاریخ کا ننھا خلاصہ ہوں
جو ناپختہ ارادے ، سوچ کی محدودیت ، لا انتہا خواہش ، گھنی گہری
جبلت کے الجھتے اور ملتے واقعوں سے بنتی رہتی ہے

مرے اندر شکستوں کے گھنے سائے ہیں
امکانوں کے جھلمل بھی !
میں اپنے آپ سے کچھ مطمئن ہوں
مضطرب بھی ہوں !
میں ندی کی روانی ہوں
کناروں کا ہوں ٹھہراؤ !
میں حسن اور زِندگی سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں

''مجھے خود سے مکمل اجِنبیت ہے،،

میں اپنے دِل کی تنہائی میں اکثر زید سے ملتا ہوں
اپنے سچ سے ملتا ہو ں!
میں اس سے گفتگو کرتا ہوں اکثر ! لیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ !
وہ میرے سامنے ہے اور مری پہچان سے باہر بھی رہتا ہے
اسے پہچانوں تو کیسے ! کہ میری آنکھیں گھائل ہیں
''وہ اور میں،، زِندگی کے دو اہم کردار ہیں
جو دور اِک دوسرے سے لفظ و معنی کی رسائی میں
جو چاہیں بھی تو شاید مل نہیں سکتے
وہ میرا اور میں اس کا کبھی محرم نہیں ٹھہرے

وہ میری پوری سچّائی ہے
اور میں آدمی کے اصل کی آدھی صداقت ہوں!
کہ میں صدیوں سے اس سے گفتگو میں گم ہوں
اور یہ گفتگو ایسی جو یک طرفہ رواں ہے

مرا ایمان ہے اگلے جِنم بھی جب میں آؤں گا
مری اور زید کی یہ گفتگو دائم رواں ریگ ِفرات ِتشنگی پر چل رہی ہوگی


یاور ماجد
۱۹۹۳
**************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 343