donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Yawar Maajed
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* وہ اور میں زید سے مکالم *
وہ اور میں
زید سے مکالم


آفتاب اقبال شمیم

یہ طویل نظمیں شاید اُس طویل نظم کے بیچ بیچ کے حصے ہیں جو ہمارے دور میں زیرتخلیق ہے۔ جس کے ''ہونے'' کا جغرافیہ کسی مخصوص خطہءِ ارض سے منسوب نہیں بلکہ اس دور کے تہذیب اور ہمارے نفسیاتی علاقوں کی خط کشی کرتا ہے۔ یہ طویل نظمیں کچھ ایسی ہیں جو آج کے خارج و داخل کی منظرکشی اور صدابندی کرتے ہوئے کسی رزمیے کے بجائے المیے کی تالیف کرتی نظر آتی ہیں۔ یوں بھی آج کی نظم میں کسی تبریس، سہراب یا ابلیس کی کردارکشی شاید ممکن نہیں رہی۔ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم پر اپنی تاریخ کا جو انکشاف اس صدی میں ہوا ہے، اُس نے ہمارے بہت سے رومانی روّیوں کو مسمار کر دیا ہے۔ مشرق و مغرب کی تاریخ اور فلسفہ ہماری اجتماعی میراث ہے۔ ہم نے صدیوں کے عمل میں جیسی بھی انسانی تہذیب کی صورت گری کی ہے۔ اس نے ہمیں یہ شعور ضرور بخشا ہے کہ انسان کو خطوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زمین، فطرت اور زندگی کے مرتب کردہ منظر نامے میں انسان ایک مرکزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا معلوم کہ انسان کی اس حیثیت کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی کارفرما ہو۔ لیکن تاحال تو یہی منکشف ہوا ہے کہ اتنی وسیع کائنات میں وہ بے کنارہ وسعت کی لہروں پر اکیلی ناؤ کی طرح ڈولتے ہوئے بہے چلا جا رہا ہے اور بظاہر اس بے معنی سفر میں وہ بالکل تنہا خود اپنے آپ سے متصادم بھی ہے۔ اُسے اس صورتِ حال کا شعور بھی ملتا جا رہا ہے۔ اس تصادم کے امکانات کیا ہیں؟ وہ اپنے آپ سے آگے بھی نکل سکتا ہے اور خود کو فنا بھی کر سکتا ہے۔ اگر وہ خود کو فنا کر دیتا ہے تو وہ ایک ناقص الوجود مخلوق کی حیثیت سے عناصر کے تجربے کا حصہ بن جائے گا او شاید زندگی آگے چل کر اُس کے مقابلے میں زیادہ بسیط اور مکمل تر مخلوق پیدا کرے اور یہ سلسلہ جاری رہے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ انسان میں امکانات کی اتنی گنجائش ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ سے آگے نکل جائے۔ مثلاً یہی چند صدیاں پہلے بستیوں کو تاراج کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا جاتا تھا۔ ایسے ہیرو اب بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں وِلن کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اِسی طرح اِستبداد اور استحصال جو آج بھی بہت عام ہے، مظلوموں کے لئے ایک چیلنج بن چکا ہے آزادی پسند قوتیں ایک ایسے زمانے کا خواب دیکھ رہی ہیں جب جبر و استحصال کا نام نہ رہے گا۔ اب وہ نشہ آور فلسفوں اور ثقافتی افیونوں مثلاً آئیڈیلائزڈ محبت جیسی منشیات کے بارے میں جان چکی ہیں کہ اُن کے بیج سے عالمی نفرت کی فصل اُگتی رہی۔ اُن کے نام پر مظلوموں کو لوریاں دی جاتی رہیں اور انہیں خوابوں کی بافندگی کا پیشہ سونپ دیا گیا۔ اب وہ نیند سے بیداری کے عالم میں ہیں۔ مظلوم اپنی نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ زور آور کے معبد میں مورتیں بنانے، ان کی غیبی قوت کی تشہیر کرنے پر کون مامور ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جبر کے بوڑھے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہوئے ہیں اور ان کی گردن سے قطرہ قطرہ سرخ زندگی ٹپک رہی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا جا رہا ہے کہ زورآور کی سیاست کا قلم ان کی لوح حیات پر جو لکھتا ہے وہی ان کی تقدیر بن جاتا ہے۔ یہ حقیقتیں آشکار تو ہو رہی ہیں لیکن حقیقت خود ایک معمہ ہے۔ رومان کا عمل آسان سا ہے، وہ شیشے کو سانس سے دھندلا کر چیزوں اور مظاہر کو دیکھ لیتا ہے۔ حقیقت بظاہر پردے اٹھاتی ہے لیکن اس عمل میں تہ اندر تہ حقیقتیں سراب سی نظر آنے لگتی ہیں۔ بہرطور یہ ادراک تو میسر آتا ہے کہ کوئی اخذ شدہ نتیجہ آحری نتیجہ نہیں، کوئی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں اور کوئی نظام فکر آحری نظام فکر نہیں۔ محدود لامحدود نہیں ہوتا۔ ہم مشاہدے اور فکر سے معنی کا جو تانا بانا بُنتے رہے وہ زندگی کی جامعیت پر تنگ رہا۔ انسان کو بُرے اور بھلے میں بانٹنا معاشرے اور فرد کو متوازن رکھنے کے لئے مفید عمل تو ہو سکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے ہم نے فرد کو اُس کو کلیت سے محروم کر دیا۔ اس کے شعور اور لاشعور میں فاصلے بڑھا دئیے۔ نصیحتوں ، دھمکیوں اور سزاؤں کی بٹی ہوئی رسی کی جنبش پر اُسے چلنا اور رکنا سکھایا۔ وہ اپنی فطرت کی اکائی سے الگ ہو کر ایک یا دو دُنیاؤں کی فکر میں اتنا سنجیدہ ہو گیا کہ اُس نے اشیاء کی منڈی اور کلیسا کے ماورائی ڈھانچے کے درمیان آمدورفت میں ہی صدیاں گزار دیں۔ کیوں نہ ہم ایک سادہ سی، آسان سی زندگی گزارنے پر سمجھوتہ کر لیں ادنیٰ و اعلیٰ اور نیک و بد کی مصنوعات بنانے سے دست کش ہو جائیں۔ ایسے شجر اکھاڑ پھینکیں جن پر استحصال اور جبر کا پھل لگتا ہے۔ فرد کی کلیت کو تسلیم کیا جائے اور فرد انسانی تاریخ میں کھائی ہوئی شکستوں اور فہم خالص کے شعور میں اپنی حدوں کے المیے کا اعتراف کرے۔ ایک درد مشترک کا اُسے وہ اخلاقی بصیرت بخشے کہ وہ اپنی اصل کو پہچان کر انبوہ کے رَواں دھارے میں قطرے کی طرح مدغم ہو جائے۔ ایسے قطروں سے بنا ہوا دھارا یقیناً اپنے آپ سے آگے نکل جائے گا۔
کیا ضروری ہے کہ صدیوں سے کھیلا جانے والا آگ اور خون کا ناٹک جاری رہے۔ کیا ضروری ہے کہ افلاس اور غلامی کی وباء پھیلانے کے لئے ہوس کے گٹروں میں زرموش کی پرورش کی جائے۔ جنسِ قوت تخلیق ہے، اسی کے شبستانوں میں بقا کا خواب پلتا ہے۔ اسے سمٹ سمٹ کر چلنے کا پابند کیوں بنایا جائے۔ سخاوت اور احسان ہی وہ انصاف ہے جو زندگی ہم سے مانگتی ہے۔ کیا یہ کارِ ناممکن ہے؟ نہیں۔ یہ ہماری حدِّ اِمکان میں ہے۔
مَیں اپنے گریبان میں کیا جھانکوں۔ یہاں تو ابھی رُفو کا بہت سا کام پڑا ہے یہاں تو ابھی شخصی حکومتیں چل رہی ہیں۔ ابلاغ عامہ کا اسرافیل جاگتے ہوؤں کو سلانے اور آذر جمود باطن کے بُتوں کو پختہ کرنے پر مامور ہے۔ یہاں تو ابھی مرد نے بیچاریوں کو چادر اور چاردیواری کا تحفظ دینے کی ذمہ داری جبراً اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اشتہار اور اشیاء کی چکا چوند میں آنکھیں کیا دیکھیں، اپنے لئے بڑے دھندے اور اولادوں کے لئے بڑی جائیدادیں، یہی ہماری ساری تگ و دو کا مرکز و محور ہے۔ ایک طبقہ ہے جو شاہ کو کج کلاہی کے تیور سکھاتا ہے، گدا کو خانقاہیں چلانے کی سہولتیں بخشتا ہے اور شاعر سے حُب الوطنی کے ثبوت میں ترانے لکھواتا ہے۔ اس کی حکمت و حکومت موقع پرستی اور منافقت کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ایک پورا کلچر ہے جو اس کے پیچھے پیچھے کلیشے اور جذباتیت کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ اس مکتب شہ گری اور درسگاہ اناشکنی کے 'ان پڑھ' دُکھ اُٹھانے اور رُسوا ہونے کے پرانے عادی ہیں اور صدیوں کی تنبیہ و سزا کے باوجود ان کی یہ عادت نہیں گئی۔ اور یہی ہیں وہ جن پر میری ساری امیدوں کا انحصار ہے۔ یہی ہیں وہ جو اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ میں خود اِسی قبیلے کا فرد ہوں۔
اور زندگی کی اِس موجود منظر گاہ میں اپنے رُوبرُو کھڑا میں سوچ رہا ہوں کہ وقت، عناصر اور تاریخ کا تیارہ شدہ پیکر اپنی اصل میں کیا ہے؟ میں اُس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں جو صدیوں سے بے تغیر چل رہا ہے۔ اس انبوہ کی ایک خردہ شکل میرے اندر بھی موجود ہے۔ مَیں اُس فطرت کا قدیم عکس ہوں جو میرے باہر اور اندر محیط ہے۔ میں اُس پرانی مٹی کی روئیدگی کا ثمر ہوں جسے دھوپوں نے پکایا ہے۔ میں اس تاریخ کا مُرقع بھی ہوں جو خیال کو جبلّت پر حاوی کرتی رہی ہے اور یوں ایک تجربے کا حاصل بھی ہوں۔ میرے اندر شکستوں کے دراز سائے بھی ہیں اور امکان کی دُور نما جھلمل بھی۔ دیکھوں تو میں خود بھی نہیں۔ اپنے آپ سے ملا ہوں، اپنے آپ سے بچھڑا ہوا۔ اپنے آپ میں بہت مضطرب، بہت مطمئن۔ ندی کی روانی بھی اور کنارے کا ٹھہراؤ بھی۔ زندہ و خوبصورت کی بے پناہ چاہت بھی اور خود سے اجنبیت اور بیزاری بھی۔ 
میں اپنی گھمبیر تنہائی میں 'زید' سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ ناوقت اور نالفظ میں چھپی ہوئی اصل۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن ایک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوکِ سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اُس کے بہت سے اندھیرے میری حسّیات کے ٹٹولنے کی پہنچے سے باہر ہیں۔ اُس کی بہت سی آوازیںمیری سماعت کے منطقتوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی اور میں اپنی آدھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ذرا سُنیے، وہ آپ میں بھی موجود ہے اور یہ گفتگو آپ کی گفتگو بھی ہے۔ اور کیوں نہیں؟ ہم سب اس مہینے، اس سال اوراس صَدی میں اکٹھے زندگی کر رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میں اگلے جنم میں بھی آؤں گا اور زید سے یہ مکالمہ جاری رہے گا۔
آفتاب اقبال شمیم
اپریل ، ٨٩
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 333