* کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگ *
غزل
یاور ماجد
کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے
کہانی تو چلے گی اختتامی باب سے آگے
تخیّل ساتھ ہے، بے خوابیوں کا پھر گلہ کیسا
کئی اک خواب باقی ہیں شکستِ خواب سے آگے
خدا کے نام پر کتنے خدا ہم نے بنا ڈالے
جبیں پر ہیں کئی سجدے، گڑی محراب سے آگے
مرے شعروں میں لفّاظی سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے
معانی ڈھونڈنے ہیں تو پڑھو اعراب سے آگے
ابھی سے پاؤں کے چکّر سے یاور تھک گئے کیونکر
بھنور باقی کئی ہیں اور اس گرداب سے آگے
************** |