|
|
|
|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* ہمیں مجرم نہیں کہنا *
ہمیں مجرم نہیں کہنا
یاور ماجد
وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
انہی میں گم کہیں لمحوں کے، برسوں اور صدیوں کے گماں ہیں
یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جارہے تھے
ہمارا خواب تھا !
ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے !
مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے آئے
یہ ہم جو خواب کے دریا سے اِک جھرنا۔۔۔
بس اِک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
مگر جانے کہاں سے لوُ کاہم طوفان لے آئے
کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سر خیاں دیکھیں
تو ہم اس سمت کو لپکے
مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
کہ ہم چہرے پہ زردی اور پیلاہٹ لپیٹے لوٹ آئے
وہی ہیں فاصلے قدموں کے منزل سے
وہی ہے راکھ چہرے پر،
وہی لوُ کے تھپیڑے ہیں
وہی زردی میں لپٹی نیم وا آنکھیں
شکستہ دِل میں تھوڑا اور جی لینے کی خواہش بھی
مگر عمرِ معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے
یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
مگر ایسا نہیں کرنا
ہمیں مجرم نہیں کہنا
کہ ہم کوہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے
خدایا!!۔
ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔
ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے
***************** |
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 351
|
|
|
|