* فصلِ گل میں ہیں کس قدر مجبور *
غزل
فصلِ گل میں ہیں کس قدر مجبور
گل خزاں میں نہ تھے مگر مجبور
ہوتی جاتی ہے ہر دوا ناکام
ہوچکے سارے چارہ گر مجبور
جانے یہ کس کی مہربانی ہے
پھر رہے ہیں جو در بدر مجبور
پھانس لیں آہنی شکنجے جب
ہوتے دیکھے ہیں شیرِ نر مجبور
کوئی لاکھوں میں ہے مگر مختار
ہم کروڑوں میں ہیں مگر مجبور
لب جو کھولیں تو حشر برپا ہو
اس لئے ہیں سکوت پر مجبور
دل اگر ہو لہو لہو انور
خوں بہانے پہ چشمِ تر مجبور
ظفر انور شکرپوری
Vill. Shakarpur, PO. Bharwara
Darbhanga-847104 (Bihar)
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|