* کہیں درہم کہیں ڈالر کہیں دینار کا *
کہیں درہم کہیں ڈالر کہیں دینار کا جھگڑا
کہیں لہنگا کہیں چولی کہیں شلوار کا جھگڑا
وطن میں آج کل اس ذات سے اُ س ذات کو شکوہ
لگا ہونے کہیں اس پار سے اُس پار کا جھگڑا
وہ مسجد ہو کہ مندر ہو ادب ہو یا سیاست ہو
وہی ہے جنگ کرسی کی وہی دستار کاجھگڑا
زمانے کی روش سے کر لیا ہے سب نے سمجھوتا
کوئی معنی نہیں رکھتا یہاں کردار کا جھگڑا
کسی کی ٹانگ ٹوٹے یا کسی احمق کا سر پھوٹے
اگر ہونے لگے ہشیار سے ہشیار کا جھگڑا
یہی انساں کھلونوں کے لئے بچپن میں لڑتا ہے
بڑے ہونے پہ کرتا ہے در و دیوار کا جھگڑا
یہ دنیائے محبت بھی انوکھی چیز ہے صاحب
کبھی انکار پر نالش کبھی اقرار کا جھگڑا
چھڑا جب ان کے گھر جھگڑا تو ان کی عقل چکرائی
جو سلجھاتے رہے تھے عمر بھر بازار کا جھگڑا
امیروں کی لڑائی میں کوئی لذت نہیں ہوتی
مزہ آتا ہے جب ہو مفلس و نادار کا جھگڑا
اگر جاہل بنے عالم تو کرتا ئید تو اس کی
ظفراچھا نہیں ہوتا ہے یہ بے کار کا جھگڑا
٭٭٭
|