* اپنی ہستی کا نگہبان سمجھ بیٹھے ہی¬ *
اپنی ہستی کا نگہبان سمجھ بیٹھے ہیں
مال و دولت کو وہ بھگوان سمجھ بیٹھے ہیں
چال میں ایسی رعونت کہ الٰہی توبہ
آدمی ہونا بھی آسان سمجھ بیٹھے ہیں
چار پیسے جو ہوئے اپنی حقیقت بھولے
خود کو وہ حاکم و سلطان سمجھ بیٹھے ہیں
مل گئی ہے جو کہیں سے انہیں بوسیدہ بیاض
اس کو وہ اپنا ہی دیوان سمجھ بیٹھے ہیں
ناز ہو کیوں نہ انہیں اپنی خِرد مندی پر
خار زاروں کو گلستان سمجھ بیٹھے ہیں
زندگی لاکھ گراں مایہ سہی پھر بھی اسے
لوگ عاشق کا گریبان سمجھ بیٹھے ہیں
اٹھا ہے جہلِ مرکب سے خمیر ان کا مگر
قوم کا خود کو حُدی خوان سمجھ بیٹھے ہیں
اس عقیدت سے لیا کرتے ہیں رشوت جیسے
اس کو اللہ کا فرمان سمجھ بیٹھے ہیں
نام رکھا ہے ظفر بوفے ڈنر دنیا نے
ہم اسے لوٹ کا سامان سمجھ بیٹھے ہیں
٭٭٭
|