* عشق جب سے ہو گیا اک ’’ لکھنوی خاتون‘‘ س® *
عشق جب سے ہو گیا اک ’’ لکھنوی خاتون‘‘ سے
دل کی باتیں روز ہی کرتا ہوں ٹیلی فون سے
جو غلاظت دل میں ہے وہ دور ہوگی کس طرح
گندگی تو جسم کی دھوتے ہو تم صابون سے
شیروانی اور ٹوپی جائیں چولہے بھاڑ میں
اب تو رغبت ہے مجھے بس کوٹ سے پتلون سے
پوپلے منہ سے چنے کھانا نہیں ممکن حضور
آنہیں سکتی جوانی لوٹ کر معجون سے
ناقدِ اعظم ہوں مولی پرلکھوں مضمون اگر
بات کا آغاز کرتا ہوں افلاطون سے
ایک ہی صورت میں گھر کی پوری ہو فرمائشیں
خاندانی سلسلہ ملتا ہو گر قارون سے
اس زمانے عجب تشنہ لبی ہے اے ظفر
پیاس اس کی صرف بجھتی ہے ہمارے خون سے
٭٭٭
|