* اس کیفیت کا میرے خدا کوئی نام ہے *
اس کیفیت کا میرے خدا کوئی نام ہے
احساس کے اُفق پہ سحر ہے کہ شام ہے
ہر لمحۂ حیات کو کچھ اور کام ہے
دستِ سوال اٹھائے ہوئے تیز گام ہے
زندہ رہا سوالیہ چہروں کے درمیاں
مرنے کے بعد لاش کی تشہیرِ عام ہے
ہر روز جوڑتا ہے گھٹاتا ہے کیوں مجھے
دے ضرب صفر سے تو حکایت تمام ہے
ایوانِ رنگ و بو میں ہیں الفاظ صف بہ صف
شہزادیٔ خیال جو محوِ خرام ہے
ہونٹوں تک آتے آتے چھلک جائے گا، ظہیر
کیا فائدہ جو ہاتھ میں لب ریز جام ہے
٭٭٭
|