* خواب گاہوں سے اذانِ فجر ٹکراتی رہ® *
غزل
٭………ظہیر صدیقی
خواب گاہوں سے اذانِ فجر ٹکراتی رہی
دن چڑھے تک خامشی منبر پہ چلاتی رہی
ایک لمبے کی خطا پھیلی تو ساری زندگی
چبھتے ذرّے کانچ کے پلکوں سے چنواتی رہی
کب یقیں تھا کوئی آئے گا، مگر ظالم ہَوا
بند دروازے کو دستک دے کے کھلواتی رہی
لمسِ حرف و صوت کی لذت سے واقف تھی مگر
پہلوائے آواز میں تخیل شرماتی رہی
****** |