* مثال _ ابر _ گریزاں ہے تو کہاں آباد *
مثال _ ابر _ گریزاں ہے تو کہاں آباد
کہ تیرے بعد تو لگتا نہیں جہاں آباد
تری لحد کے چراغوں پہ وار آیا ہوں
جو میری آنکھ کے اندر تھی کہکشاں آباد
ترے پلٹ کے جو آنے کا ہو یقین تو پھر
ہزار بار کروں بزم _ دوستاں آباد
یہ مشت _ خاک ہوا سے یونہی نہيں اڑتی
زمین والوں سے ہوتا ہے آسماں آباد
ہم اپنے پرچم _ نام و نسب پہ لکھ دیں گے
کوئ تھا، جس نے کیا شہر _ رفتگاں آباد
یہ کون شخص تھابس دو گھڑی ٹھہر کے یہاں
اداس کر کے چلا کوۓ جاوداں آباد
بدن کو چھوڑنا پڑتا ہے بس قیامت تک
یونہی تو ہوتے نہیں ہیں یہ لامکاں آباد
جو تن پہ خاک کی چادر کو لے کے سویا ہے
اسی کے دم سے تھا یہ شہر _ عاشقاں آباد
تری جدائ نے مسمار کردیا ہے ہمیں
سو کیا بتائيں کہ کب ہونگے جسم و جاں آباد
سوگوار۔ ذاکر حسین ضیائ
|