سورج ہوں ڈَھل نہ جاؤ ں تجھے دیکھنے کے بعد
تُو سامنے ہے پھر بھی تجھے دیکھتا نہیں
خود کو نظر نہ آؤں تجھے دیکھنے کے بعد
شاید میں جی رہا ہوں تری دید کے لیے
شا ید میں جی نہ پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
مجھ سے بھی تیرے بعد کسی نے وفا نہ کی
اَب تجھ سے کیا چھپاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
ممکن تو یہ بھی ہے ترے دربارِ حُسن میں
میں سامنے نہ آؤں تجھے دیکھنے کے بعد
تُو بھی مجھے نہ ایسے نگاہیں چُرا کے دیکھ
میں بھی نہ مسکراؤں تجھے دیکھنے کے بعد
یوں تو لگی ہے آگ سی سارے بدن میں آج
اِک آگ تو بجھا ؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اے خوابِ وصلِ یار! کبھی بَن سنور کے آ
گھونگھٹ ترا اٹھاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
اک خواب دیکھتا ہوں حقیقت کے روپ میں
نیندیں کہا ں سے لاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
دامن میں غم ہی غم ہیں شکستہ ہے دل مرا
میں پھر بھی مسکراؤں تجھے دیکھنے کے بعد
سوچا تو سوچتا ہی رہا عمر بھی تجھے
اب دیکھتا ہی جاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
آنکھوں سے تیرا عکس چرا ہی نہ لے کوئی
آنکھیں کہا ں چھپاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
آنکھوں میں تُو ہی تُو ہے نگاہوں میں تُو ہی تُو
کس سے نظر ملاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
بازارِ شہرِ مصر میں کیا کیا بِکا نہیں
حیدرؔ میں کیا بتاؤں تجھے دیکھنے کے بعد
ذیشان حیدرؔ