donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Afzal Misbahi
Journalist
--: Biography of Afzal Misbahi :--

 

  افضل مصباحی  

 
Name: Md. Afzal Hussain
Pen Name:- Afzal Misbahi
Father's Name:- Md.Shabbir Ahmad
Date of Birth:- 5' December, 1977
Place of Birth::- Hareva Salkhawa Bazar, Saharsa (Bihar)
اصل نام : محمد افضل حسین
ولدیت : محمد شبیر احمد
بی بی نجم النساء
تاریخ پیدائش : ۵ دسمبر ۱۹۷۷
جائے پیدائش : ہریوا سلکھو ا بازار، سہرسہ(بہار)
 
15جولائی2000سے صحافتی زندگی کا آغاز بحیثیت، جزووقتی نامہ نگار، روزنامہ راشٹریہ سہارا ، دہلی سے ہوا۔ کچھ دنوں کے تجربہ کے بعد، سب ایڈیٹر، کے طور پر مذکورہ روزنامہ میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ جس دوران  جزووقتی نامہ نگار کے طور پر کام کرتے تھے، انہی دنوں جواہر لال نہرو یونیوسٹی سے صحافت کا پروفیشنل کورس، ایڈوانس ڈپلومہ ان اردو ماس میڈیا، کیا۔ روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ دہلی میں کام کے دوران اخبار کی اہم ترین ذمہ داریاں ادا کیں۔ مثلاً کچھ دنوں تک قومی اور بین الاقوامی خبروں کی ایڈیٹنگ کے بعد، دستاویز، کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ برسوں تک، دستاویز، جو ہفتہ میں ایک دن دو صفحات پر مشتمل ہوتا تھا، اس کو تیار کرنے کی پوری ذمہ داری افضل مصباحی کی تھی۔ چنانچہ اولاً ہفتہ کے اہم ترین موضوع کا انتخاب، پھر اس موضوع پر مواد ہو تو اس کا ترجمہ کر کے، دستاویز، کے لائق بنانا، تمام مضامین کی ایڈیٹنگ کے علاوہ، دستاویز، کے لئے ادارتی نوٹ لکھنا، موضوع سے متعلق تاریخی حقائق کو پیش کرنا وغیرہ پوری ذمہ افضل مصباحی کی تھی۔ اس کے علاوہ کچھ دنوں ادارتی صفحہ کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ ہفت روزہ، عالمی سہارا، کا انچارج بھی ان کو بنایا گیا۔ اس دوران وقتاً فو قتاً قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر مضامین تحریر کرنا، وقت ضرورت اداریہ لکھنے کی بھی ذمہ داری پوری کی۔ اسی دوران دہلی یونیوسٹی سے صحافت کے موضوع پر 2005ء میں ایم فل کا کورس کیا، جس کا موضوع تھا’’اکیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی مسائل دستاویز کے حوالے سے‘‘چنانچہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے دستاویزپر 300 صفحات کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا، جس میں ایک باب، موجودہ صحافت کا منظر نامہ بھی ہے۔ یہ پورا تحقیقی مقالہ صحافت کے موضوع پر ہے جواب کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکا ہے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں صحافتی خدمات کے دوران افضل مصباحی کو سہارا انڈیا کمپنی نے ممبئی سے روزنامہ، راشٹریہ سہارا، لانچ کرنے کے لئے بھیجا۔ دو ماہ تک وہاں رہ کر انہوں نے ممبئی سے روزنامہ راشٹریہ سہارا نکالنے میں کلیدی کر دار ادا کیا۔ پھر کمپنی نے گور کھپور یونٹ کی اہم ذمہ داری سپرد کی۔ وہاں کچھ دنوں تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد 16مئی2006کو اچھے مواقع کی تلاش میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں تقریباً 6سال ملازمت کے بعد جون2006سے ماہنامہ، ماہ نور، دہلی کے ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہ ماہنامہ کچھ ماہ قبل سے منظر عام پر آ رہا تھا لیکن اسے کوئی خاص مقبولیت نہیں مل پائی تھی۔ چنانچہ جون2006میں ادارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اس ماہنامہ کو کافی مقبولیت عطا کی۔ افضل مصباحی نے ’ماہ نور‘‘ دہلی کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے، ابنائے اشرفیہ نمبر، نکالا جو اپنی نوعیت کا منفرد و خصوصی شمارہ تھا اور ایک بڑے حلقے میں کافی پسند کیا گیا۔ اس کے بعد افضل مصباحی نے ماہنامہ ’ماہ نور‘ کا ’حقوق انسانی نمبر‘ نکالا، جس میں ملک کے بڑے بڑے اسکالرز کے مضامین شائع کیے۔ یہ نمبر بے حد مقبول ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس خصوصی نمبر پر پروفیسر اختر الواسع نے اظہار خیال کرتے ہوئے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’اگر میرا بس چلے تو میں اسے ہندوستان کے تمام مدارس کے نصاب میں شامل کر دوں۔ ’’حقوق انسانی نمبر تقریباً 300صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی مقبولیت کے بعد تقریباً600صفحات پر مشتمل، اشرف العلماء نمبر، افضل مصباحی نے نکالا۔ یہ خصوصی شمارہ ممبئی کی سرزمین پر علم و عمل کا چراغ روشن کرنے والی عظیم شخصیت، اپنے وقت کے مشہور عالم دین مولانا سید حامد اشرف کچھ وچھوی معروف بہ اشرف العلمابانی دار العلوم محمد یہ ممبئی کی شخصیت پر مشتمل تھا۔ جون 2006ء سے تادم تحریر افضل مصباحی مذکورہ ماہنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔ رسالہ مذکور میں ہر ماہ اداریہ کے علاوہ مضمون اور ایک خاص کالم ، فن صحافت، افضل مصباحی تحریر کرتے ہیں۔ اب تک سیکڑوں مضامین سیاسی اور سماجی موضوعات پر مختلف روزناموں رسائل و جرائد وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔ درجنوں سیاسی، سماجی شخصیات، ماہرین تعلیمات اور بیورو کریٹ کے انٹر ویو افضل مصباحی نے لئے ہیں جو روزنامہ ’راشٹریہ سہارا، عالمی سہارا، راشٹریہ سہارا ہندی، سہارا ٹائمز (انگریزی) اور ماہنامہ، ماہ نور، دہلی میں شائع ہو چکے ہیں۔
اس وقت افضل مصباحی دہلی سے شائع ہونے والے معروف اردو روزنامہ ’ہمارا سماج‘ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہفتہ ، پندرہ دنوں پر، بولتی سطریں، کے نام سے افضل مصباحی کا خصوصی کالم بھی شائع ہوتا ہے جو حالات حاضرہ پر مشتمل ہوتاہے۔ جنوری2009میں لیسٹر شائر برطانیہ میں ’ڈائیورسٹی اینڈ ڈائلاگ، موضوع پر منعقد بین الاقوامی مذکرات میں شرکت کا شرف بھی افضل مصباحی کو حاصل ہے۔ حکومت بر طانیہ نے اس پروگرام کے لئے انہیں مد عو کیا تھا اور اس کے لئے انہیں ایک سرٹی فکیٹ سے بھی نوازا۔ برطانیہ سے واپسی پر انہوں نے، سفر نامہ برطانیہ، بھی تفصیل کے ساتھ تحریر پر کیا جسے مختلف اخبارات اور رسالوں نے شائع کیا۔ یہ سفر نامہ کافی مقبول ہوا۔ نو جوان اردو صحافیوں میں افضل مصباحی کی خدمات نمایاں ہیں۔ مذکورہ ماہنامہ کے توسط سے وہ بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہیں جب کہ روزنامہ ’ہمارا سماج‘ کے ذریعہ قومی سطح پر ان کی خدمات کافی اہمیت کی حامل ہیں۔ افضل مصباحی نے دہلی یونیورسٹی سے صحافت ہی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔جس کا موضوع ہے : ’’آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو صحافت‘‘
افضل مصباحی نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی آبائی وطن ہریوا، سہرسہ، بہار میں اپنے وقت کے صوفی بزرگ عالم دین مولوی یٰسین مرحوم سے حاصل کی۔ پھر اپنے ہی گائوں میں واقع دارالعلوم فیضان وارث میں درجہ چہارم تا ہشتم تعلیم حاصل کی۔ پھر1990ء میں الجامعتہ الاشرفیہ مصباحی العلوم مبارکپور، اعظم گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں انہوں نے مولوی، عالم، فاضل کی تعلیم حاصل کی۔1997ء میں انہوں نے مذکورہ ادارہ میں سب سے اول نمبر حاصل کیا اور انہیں پانچ ہزارروپئے کی کتابیں انعام کے طور پر دی گئیں۔ پھر انہوں نے1997ء میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی میں ’نقابل ادیان، اور عربی و انگریزی زبان و ادب  پر دو سال کا کورس مکمل کیا اور یہاں بھی انہوں نے اپنے کلاس میں اول نمبر حاصل کیا۔ 2001میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے گریجویشن کی تعلیم فرسٹ ڈیویژن سے حاصل کی۔2003میں انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ (اردو) امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔2005میں انہوں نے ایم۔ فل کی ڈگری میں اول پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔
عہد حاضر میں افضل مصباحی بہار سے تعلق رکھنے والے اردو صحافیوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور مستقبل میں بھی ان سے بہتر کار ناموں کی توقعات ہیں۔
 
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 2037