donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Alimullah Hali
Poet
--: Biography of Alimullah Hali :--

 

 

 

* Name

:

Alimullah Hali

* Father's Name

:

Syed Ahmad

* Date of Birth

:

1941

* Education

:

M.A, Phd.

Home town

:

Purnia

* Working

:

Teaching

* Literary Work

:

1. Safar jalte dino ki (Sheri Majmooa)
2. Ehtesaab (Tanqeedi Mazameen)
3.Nakhle Janoo (Sheyri Majmooa)
4. Etebar (Tanqeedi Mazameen)
5. Ham musafirjahan guzre (Safar Namaa)
6. Shaa khein (Nasri Tahreer)

 
 
 
 

علیم اللہ حالی

اصل نام : سید علیم اللہ

والد کا نام : سید احمد (مرحوم)

تاریخ پیدائش : 17 جون1941

جائے پیدائش : بھاگلپور

علیم اللہ حالی ادبی دنیا میں شاعر اور نقاد کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں اور شہرت کی تیز شعاعوں میں ان کی صحافتی خدمات کسی حد تک معدوم ہوگئیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ بطور شاعر اور نقاد مشہور نہ ہوتے تو یقینی طور پر لوگ انہیں آج صف اول کے صحافیوں میں شمار کرتے۔ اس لئے کہ انہیں بچپن ہی سے صحافت نگاری کا ذوق تھا اور عمر بھر انہوں نے صحافت کو کسی نہ کسی طور پر اپنا ئے رکھا، اور اس وقت جبکہ وہ سبکدوشی (ملازمت سے) کی زندگی گزار رہے ہیں، صحافت کو ہی سرمایہ حیات بنائے ہوئے پابندی سے سہ ماہی رسالہ ’’انتخاب‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ علیم اللہ حالی ایک غیر معمولی صلاحیتوں اور ذہانت کے مالک ہیں۔ ان کے اداریوں اور تبصروں میں غضب کی معنویت اور سحر انگیزی ہوتی ہے۔ ان کا ہر جملہ بڑا نپا تلا اور منفرد اسلوب کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ زبان کی شائستگی ، سنجیدگی اور متانت ایک خاص قسم کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوتا 
ہے۔
 
علیم اللہ حالی کا آبائی گائوں مشکی پور (مونگیر) ہے۔ جو بے حد مردم خیز علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس گائوں اور اس کے اطراف سے کئی اہم علمائ، ادبا، و شعرا، کی موجودگی رہی ہے۔ علیم اللہ حالی کی پیدائش بھاگلپور میں ضرور ہوئی، لیکن ان کا بچپن پورنیہ میں گزرا، اس کی وجہ ان کے والد کی نقل مکانی تھی۔ تیسرے کلاس میں ان کا داخلہ پورنیہ سٹی مڈل اسکول ، پورنیہ میں اس وقت کرایا گیا، جس وقت اس اسکول کے مدرس و فا ملک پوری جیسے شاعر اور صحافی تھے۔ ان کی شاگردی کا ہی یہ فیض تھا کہ حالی، وفا ملک پوری ہی کے بتائے ہوئے ڈگریر چلے اور وفاہی کی طرح اپنے ذوق و شوق کی سیرابی کے لئے شاعری اور صحافت کو اپنا یا، ساتھ ہی ساتھ ضروریات زندگی اور
کئی نسلوں کی آبیاری کے لئے درس و تدریس (ملازمت) کے فرائض انجام دیتے رہے۔
علیم اللہ حالی نے اردو صحافت کی سنگلاخ اور خاردار راستوں پر کب سے چلنا شروع کیا ؟ میرے اس سوال پر انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ —
’’میں نے اس وقت اپنا سفر شروع کیا اور ایک ایسے ماحول میں صحافت کا چراغ جلایا، جو قطعی طور پر اس کے لئے موافق نہیں تھا۔ آپ کو تعجب ہوگا کہ میں نے اول اول قلمی دیواری اخبار کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر ہفتے فل اسکیپ کا غذ جوڑ کر اخبار تیار کرتا، اس میں مقامی خبریں ہوتیں سیاسی اور اتھل پتھل پر اپنے خیالات بھی رقم کرتا ۔ شعر و ادب سے متعلق خبریں اور تجزیات نیز دوسری بہت سی باتیں جو عام پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث  ہو سکتی تھیں، اس دیواری اخبار کے ذریعہ ہر ہفتہ لوگوں تک خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔پھر باقاعدہ ادبی صحافت کی طرف رجوع ہوا۔ ماہنامہ ’’صبح نو‘‘ سے وابستگی رہی۔ ’’حق شناس‘‘ سہیل اور دیگر کئی رسائل و جرائدکے ذریعہ اپنے اس ذوق کی تسکین کرتا رہا اور ہنوز سہ ماہی ’’انتخاب‘‘ کی شکل میں یہ سلسلہ جاری ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ علیم اللہ حالی کا صحافتی سفر بڑا طویل رہا ہے۔ اس کی تفصیلات سے قبل بتادوں کہ حالی نے پورنیہ کے ضلع اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد انٹر اور بی ۔ اے۔ (اردو آنرز) کے امتحانات پورنیہ کالج سے امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد وہ پٹنہ آگئے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ (اردو) اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت انہیں اختر اورینوی اور جمیل مظہری جیسے استاد ملے اور لطف الرحمٰن اور قمر اعظم ہاشمی جیسے دوست ملے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ       مگدھ یونیورسٹی کے مختلف کالجوں میں ایک بہتر استاد کے فرائض انجام دیتے ہوئے
صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے مگدھ یونیورسٹی سے سکبدوش ہوئے۔ 
علیم اللہ حالی کی مندرجہ بالا سطور میں جس قلمی اخبار کا ذکر ہوا ہے، اس اخبار کا نام ’’عذاد‘‘ تھا اور اس قلمی اخبار سے قبل حالی جب اسکول کے طالب علم تھے اس وقت ہاتھ سے لکھ کر بچوں کا رسالہ ’’پیار‘‘ جاری کیا تھا۔ نیا اورکچھ الگ کر گزر نے کا جذبہ بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ سن شعور کو پہنچے اور کالج کے طالب تھے تب انہوں نے اپنے استاد وفا ملک پوری کے ماہنامہ رسالہ ’’صبح نو‘ میں معاونت کرنے لگے۔ وفا ملک پوری نے بھی کچھ عرصہ تک ان کی محنت ،لگن اور ذوق و جذبہ  کو دیکھنے کے بعد انہیں   ’’صبح نو‘‘ کامدیر معاون اور پھر مدیر اعزازی بنا دیا۔ہم ایک وقت ایسا بھی آیا۔ جب وفا ملک پوری، بڑھتی عمر اور بڑھتے اخراجات سے تھکن محسوس کرنے لگے۔، تب علیم اللہ حالی بذات خود اس رسالہ کے مدیر اعزازی بن گئے اور کئی سال تک اس کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایا۔ اگست، ستمبر ۱۹۶۸کے ’’صبح نو‘‘ میں ’’راہ سخن‘ کے تحت ’’آزادی اس کا مفہوم اور معیار‘‘ عنوان سے علیم اللہ حالی نے جو اداریہ لکھا ہے، وہ حالی کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی، تہذیبی شعور کا غماز ہے۔ چند جملے دیکھئے، لکھتے ہیں۔
’’ہمارے سماج کے غلط اور نقصان رساں عناصر بھی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتے، جب تک یہاں کے باشندے بیدار نہ ہوں۔آپ موجودہ حکومت سے زیادہ توقع نہ کیجئے اور یہ اطمینان نہ کیجئے کہ حکومت وقت آپ کے لئے سب کچھ کر دے گی، اگر آج ہندوستان کے باشندے کسی سہارے پر تکیہ کرنے کی بجائے آزادانہ پر خلوص کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ہماری بہت سی پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔
 
آزادی دراصل صرف کسی حکومت کے شکنجہ سے آزاد ہونے ہی کا نام نہیں، جب تک انسان کا ذہن و ضمیر اور فکر و نظر آزاد نہ ہو، حقیقی آزادی کا اس وقت تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
 
ملازمت کے بعد بھی حالی کبھی چین سے نہیں بیٹھے، بحیثیت لکچرر ان کی پہلی پوسٹنگ آرہ  کے ایک کالج میں ہوئی، تو وہاں سے بھی پندرہ روزہ اخبار ’’جادہ‘‘ کی ادارت میں مصروف ہو گئے، گیا آئے تو ماہنامہ ’’سہیل‘‘ کی ترتیب و پیشکش کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے لگے، اسی دوران گیا ہی سے محمد کمال الدین نے ’’نمود‘‘ نامی ہفتہ وار اخبار نکالنا شروع کیا تو اس میں بھی اپنی صحافتی جادو گری دکھائی، ان کے بھانجے سید شہباز عالم نے پٹنہ سے ہفتہ وار ’’حق شناس‘‘ کا اجراء کیا تو اس کے حسن و معیار میں منہمک ہو گئے۔ جب یہ سب صحافتی راستے اندھیرے میں معدوم ہو گئے تو راقم الحروف کے ہفتہ وار اخبار ’’بودھ دھرتی‘‘ کے آخری صفحہ پر ’’شاخیں‘‘کے عنوان سے کالم لکھنے لگے اور اپنے شذ رات سے پوری ادبی دنیا کو متاثر کیا، بعدمیں اس کے تمام کالم، شاخیں، ہی کا نام سے بہار اردو اکاڈمی کے مالی تعاون سے کتابی شکل میں بھی سامنے آئے۔ سبکدوش ہونے کے بعد سہ ماہی ’’انتخاب‘‘ جاری کیا، جو پورے ہندو پاک میں یکساں طور پر مقبول ہے۔
علیم اللہ حالی نے بلاشبہہ اپنی علمیت، ذہانت اور دانشوری سے بہار کی اردو صحافت کو باوقار بنایا ہے۔ جس کی ہر عہد میں قدر ہوگی اس کا مجھے یقین ہے۔
 
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
 پروفیسرعلیم اللہ حالیؔ  کا انتقادی اسلوب 

(’بیاں اپنا‘کی روشنی میں)

ڈاکٹر کلیم اختر

پروفیسر علیم اللہ حالی ؔ ایک منفرد ہنرمند ناقد ہیں اور ایک معتبر شاعر بھی ۔موصوف دونوں شعبوں میں معروف وممتاز نظر آتے ہیں ۔ شاعری کی نسبت سے وہ ایک غزل گو بھی ہیں اور ایک نظم نگار بھی۔ غزل گوئی سے زیادہ ان کی نظم نگاری ہمہ گیر اور مستحکم نظر آتی ہے۔ وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ نظموں میں زیادہ بہتر اظہار کرسکتے ہیں۔ مگر میرے خیال میں وہ نظموں کے جتنے اچھے شاعر ہیں، غزلوں کے اس سے کہیں زیادہ اچھے ناقد۔ اس لیے کہ فن غزل پر ان کی گرفت حددرجہ مضبوط و مربوط ہے، چنانچہ غزل کے فنی نکات سے ان کی گہری اور ہمہ گیر واقفیت کا احساس ہوتاہے۔ وہ اپنے تنقیدی انہماک وارتکاز میں اعلیٰ روایت کے رسوم وقیود سے ناآشنا نہیں اور جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے رجحانات ومیلانات سے بےخبر بھی نہیں یعنی غزل کے مطالعے میں ان کا انتقاد بہت مضبوط ہے۔ ظاہر ہے اس معاملے میں وہ بہت سنجیدہ ہیں اور اپنے عمیق مطالعے اور سخت گیر رویے کے لیے مشہور بھی ہیں۔ شاید اسی سبب سے لوگوں کو ان کا نقد ونظر خشک تر معلوم ہوتاہے، لیکن ایک ذہین قاری یا ناقد ان  کیDrynessمیں بھی اپنے افکاروادراک کی بدولت تازگی اور شگفتگی تلاش کر ہی لیتاہے۔ علیم اللہ حالی کی تنقید نگاری میں اکثر ایساہی معاملہ نظر آتاہے اور ظاہری آنکھ سے دیکھنے والے ان سے ناراض ونالاں نظر آتے ہیں۔

اول اول چند شخصیات سے میں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ حالی صاحب سے کچھ لکھوانا گویا اپنی شاعری کو Damageکرناہے جبکہ ایسی بات نہیں۔ جب میں نے ان کی تنقید ی تحریروں کا سنجیدگی اور متانت کے ساتھ مطالعہ کیا تو یہ اندازہ ہوا کہ وہ کسی کو خواہ مخواہ Damage کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ صرف تخلیق کار یا فن کا ر کو آئینہ دکھادینا چاہتے ہیں۔ وہ مخصوص انداز میں فنکار کے اثبات ونفی کو ظاہر کردیتے ہیں۔ بیشتر فنکار ان کی اس آئینہ گری سے گھبراتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں۔لوگ یہ نہیں جانتے کہ تنقید کی افادیت کیاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تنقید ایک ڈاکٹر یا حکیم یا جراح کا کام کرتی ہے۔ جس طرح ایک ڈاکٹر بیمار جسم کے لیے دوا تجویز کرتاہے اور ضرورت پڑنے پر نشتر کا بھی استعمال کرتاہے، اسی طرح ایک ناقد بھی بیمار شعروادب کا علاج کرتاہے۔ اس کے امراض کی نشاندہی کرتاہے اور ضرورت پڑنے پر اپنےنشتر کا استعمال  بھی کرتاہے۔ تنقید ادب وشعر کا ذوق بھی پیداکرتی ہے، فنی ادب کا معیار ووقار بلند کرتی ہے، افراط وتفریط کی راہ سے خبرداربھی کرتی ہے، چنانچہ تنقید کے بغیر اعلیٰ وارفع تخلیق وجود میں نہیں آسکتی بلکہ تنقید ی شعور کے بغیر کوئی عمدہ تخلیق وجود میں آہی نہیں سکتی۔ ہر تخلیق میں تنقیدی شعور کارفرماہوتاہے۔ آل احمد سرور کے اس خیال سےاتفاق کیاجانا چاہیے:

’’بڑے تخلیقی کارنامےبغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آسکتے، تخلیقی جوہر کے بغیر تنقیدی شعور گم راہ ہوجاتاہے اور تنقیدی شعور کے بغیر تخلیقی استعداد بے جان رہتی ہے‘‘

(تنقید کیا ہے۔ص ۱۸۵)

دراصل تنقید انہیں معنوں میں تخلیق کی ہمرکاب ہوتی ہے۔ علیم اللہ حالی اردو شعروادب کے تنقید نگار ہیں اور بنیادی طور پر غزل کے منفرد ناقد  ہیں جو خاجیت کی کم اور داخلیت کی بات زیادہ کرتے ہیں اور اگر خارجیت کا کبھی تذکرہ کرتے بھی ہیں تو خارجیت کی گفتگو کرتے کرتے داخلیت میں پہنچ کرفن یا فنکار کی تخلیقی شخصیت کو مکمل طورپر نمایاں کردیتے ہیں۔ اس طرح خارجیت سے داخلیت کی طرف اور داخلیت سے پھر خارجیت کی سمت آنے جانے کا سلسلہ فن اور فنکار کی تفہیم کا ایک مستحسن طریقہ ہے۔ ظاہر ہےکہ تنقید کی خارجی حقیقت کا Direct Approachتنقید نگاری کی داخلی معنویت کو مجروح کردیتاہے۔اس طرح ایک باشعور ناقد، فن یافنکار کے داخلی معنویت کو نمایاں کر دیتاہے۔ ان امور کی وضاحت وصراحت کے لیےپروفیسر علیم اللہ حالؔی کی تنقید ی نگارشات سے کچھ اقتباسات پیش کئے جاسکتے ہیں، ملاحظہ ہوں:

’’غزل کا آرٹ Prismکا آرٹ ہے، الفاظ کی ذراسی تبدیلی معانی ومفہوم کے نئے نئے نقشے بنادیتی ہے۔ ان نقشوں اور صورتوں میں لفظوں کا انعکاس کسی مرتب نظام کا پابند بھی نہیں ہوتا اور الفاظ اپنے تحرک سے ہزاروں ہزار تصویریں بناتے جاتے ہیں۔‘‘انتخاب۔۲

’’غزل کا شعر Multi-dimensionalہوتاہے۔ یہ وضاحت وصراحت نہیں بلکہ علامت واشارت سے متصف ہوتاہے۔ یہ ساختہ نہیں بلکہ بے ساختہ ہوتاہے۔ اس سے فنکار کی داخلی کیفیات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ یہاں فنکار کا لہجہ مادی اور خارجی ہونے کےباوجود ماورائی ہوتاہے، یہ وہ منزل ہے جہاں حقیقت اور مجاز ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتے ہیں۔‘‘انتخاب۔ ۱۰

’’نئی تشکیلیت الفاظ کے بدلنے پر اتنا اصرار نہیں کرتی جتنا الفاظ کو ان کی داخلی وسعتوں میں سمونےپر۔ اس طرح نئی تشکیلیت ظاہری یا خارجی انحراف نہیں بلکہ داخلی انحراف سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘انتخاب۔۱۷

’’سچا ،اچھا اور تازہ ادب بہر حال انحراف سے پیدا ہوتاہے۔ ہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انحراف کا یہ عمل خالص تخلیقی سطح پر ہونا چاہئے۔ وہی فن کار انفرادیت کا حامل ہوسکتاہے جس میں انحراف کے بعد ایک نئی حسین روایت کو جنم دینے کی توانائی ہو۔‘‘انتخاب ۔۹

’’شاعری میں موضوع واحساس کی Transparancy اس کےلیے قاتل ہوتی ہے۔ یہاں احساس ہو یا موضوع یہ دونوں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔یہ دید اور نادید کی متحرک جلوہ گری کا ایک کرشمہ ہے، گفتنی اور ناگفتنی کے درمیان سنی جانے والی ایسی آوازوں کا نام ہے جس کے عدم تعین سے بسا اوقات قاری الجھن محسوس کرسکتاہے۔‘‘انتخاب۔۱

’’نئی دنیا بسانے کا عزم ان سائنس دانوں اور مہم جو افراد کے یہاں بھی ملتاہے جو اپنی زمین سےاٹھ کر دوسرےسیاروں میں پرواز کرتے ہیں اور وہاں زندگی کے آثار تلاش کرتے ہیں۔ کلیم اخترؔ یا ان جیسے نو تشکیلات پسند شعراء شاعری کی مروجہ زمینِ شور سے اٹھ کر جن نئی فضاؤں کو زندگی کے وجود سے مزین کرناچاہتے ہیں وہاں خدشات بھی ہیں اور امکانات بھی۔ لامحدود امکانات کی تلاش بسااوقات اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ بھی بن سکتی ہے لیکن ایک سچا فنکار اپنی مسلسل مخلصانہ کوششوں اور ہنر مندی کے طفیل بہر حال ایک موافق فضا کی تعمیر کرلیتاہے۔‘‘انتخاب۔۱۷

علیم اللہ حالی کا ایک تنقیدی امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی ہر تحریر زبردست ربط وضبط سے مملو ہوتی ہے۔ محولہ بالا اقتباسات میں نہ صرف ان کے فکر کی تازگی اور بلندی کا احساس ہوتاہے بلکہ اظہار وبیان پر بھی ان کی منفرد قدرت کا اندازہ ہوتاہے۔ گویا کہ اپنے احساس جمال اور قوت اظہار کے طفیل علیم اللہ حالؔی کو تنقید کے نظام شمسی کا خاصا علم ہے۔ یقینا ًانہیں سائنسی سبجکٹ سے گہر ا تعلق رہاہوگا یا طبیعیاتی وکیمیائی مطالعات سے دلچسپی رہی ہوگی ورنہ وہ سائنس داں، سیارہ، پرواز، فضا اور زمین شور جیسے طبیعیاتی وکیمیائی عناصر کی گفتگو ہرگز نہ کرپاتے۔ وہ اپنی تنقید میں نئی نئی مثالیں گڑھتے ہوئے اپنے حسین وجمیل فقروں کے استعمال میں رواں دواں نظر آتے ہیں۔ اس سے ان کے مرتب ذہن کا احساس نمایاں ہوتاہے۔

بظاہر شعر کی تخلیق کے مرحلے میں اس کی معنویت اور اس کی اہمیت وافادیت کی کج فہمی کی وجہ سے تخلیق کار عجلت پسندی سے کام لیتاہے اور یہ عجلت اسے خسارے میں ڈال دیتی ہے۔

شعر کس لفظ یا کس جوہر حسن سے بلند وبالا ہوتاہے؟ اس کا رنگ وآہنگ کیاہے؟ اس کے تخلیقی استعمال میں کون سا ادبی لفظ متحرک ہے۔ استعمال شدہ الفاظ سے شعری حسن کس درجہ بلیغ ہوسکتاہے۔ حشو و زوائد کی نشاندہی ، شعری اقسام یا فنی محاسن ومعائب یا معتبر تحسین وتعئین یا  ادبی اثبات ونفی جیسے عناصر سے شعر کا کیا علاقہ ہے؟ علیم اللہ حالؔی نے ان نکات سے جگہ جگہ ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نکات تخلیقی پروسس کے علاوہ تنقیدی عمل یا عملی تنقید میں معاون بنتے ہیں۔ دراصل انہیں امور سے وابستہ نقاد اپنا منفردمقام حاصل کرلیتاہے ۔ غزل ، نظم ، افسانے اور ڈرامے کے فنون کے حوالے سے پروفیسر علیم اللہ حالی کی درج ذیل تحریریں نہ صرف تنقید ادب کا معیار قائم کرتئ ہیں بلکہ تخلیق کار وں کو بھی نشان راہ بتاتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں:

’’افسانے کا فن تجاوزات کا متحمل نہیں ہوسکتا، یہ Pin-pointedہوتاہے اور غیر ضروری وقوعوں سے اس کی تاثیرکی وحدت غارت ہوجاتی ہے۔ افسانہ نگار قصہ گو نہیں ہوتا۔ یہ قصوں سے آرٹ پیدا کرتاہے ۔اختصار اور مرکزیت سے ہی افسانے کی معنویت متعین ہوتی ہے۔‘‘انتخاب۔۱

              ’’تخلیق کی تفہیم کی نازک ذمہ داری وہی شخص بطرز احسن اٹھا سکتاہے جو تخلیق سے قریب تر ہو ۔ تخلیق سے اور اس کے اندرون میں جذبی تموجات تک اس فرد کی رسائی ہو سکتی ہے جو یہ داخلی سفر کرسکتاہو۔ تیراکی کے فن کی لغزشوں اور اس کے نتائج کو ایک تیراک ہی سمجھ اور محسوس کرسکتاہے۔ اس نقطہ نظر سے سید احمد قادری کے تنقیدی انہماک کو سنجیدگی کے ساتھ قبول کیاجاسکتاہے مگر اسی شرط کے ساتھ کہ تخلیق سے ان کی رشتہ داری برقرار رہے۔ ‘‘ انتخاب ۔۱۷

  ’’ڈرامہ بنیادی طور پر کرداروں کے حرکت وعمل کے بالمشافہ اظہار سے تعلق رکھتاہے۔ یہاں ناول، ناولٹ یا افسانے کی طرح فنکارکرداروں کو ہر جگہ سہارا نہیں دیتا بلکہ ڈرامے کا کردار خود اتنا فعال اور اہم ثابت ہوتاہے کہ اکثر وبیشتر تخلیق کار پس پر دہ ہوجاتاہے۔‘‘انتخاب۔۵

  ’’تنقید نگاری کا بنیادی کام فن پارے کی تفہیم اور اس کی تعین قدر ہونا چاہئے۔ ان معنوں میں کچھ ایسا لگتاہے کہ تنقید متن کے تجزیے ، تشریح اور ترجمانی سے تعلق رکھتی ہے لیکن معیار پر پہنچ کرتنقید تجزیات اور تشریحات کے لیے اصو ل ونظریات کی وضع بندی کرتی ہے، وہ محض کسی فن پارے کے رموز واسرار کا تجزیہ کافی نہیں سمجھتی بلکہ تخلیق کی معنویت اور تخلیقی عمل کے مکمل پروسس سے علاقہ رکھتی ہے۔‘‘انتخاب۔۳

        متذکرہ بالا اقتباسات سے علیم اللہ حالؔی کے فکر ونظر کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ فن پارے کے مطالعے کے لیے تنقیدی زبان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اردو زبان کی اپنی ایک تہذیب ہے۔ پروفیسر حالی اردو کی اس ثقافت سے گہرے طورپر وابستہ ہیں۔ علیم اللہ حالی نے تنقید کا جولہجہ اختیار کیاہے وہ دوسرے تنقید نگاروں سے یکسر مختلف ہے۔ در اصل وہ ایک مخصوص اسلوب کے حامل ہیں، ان کا لہجہ دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ فن پارے کے ناخوشگوار پہلوؤں کو اس خوبصورتی کے ساتھ سامنے لاتے ہیں کہ اسلوب میں گفتنی اور ناگفتنی کی ملی جلی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ ان کی تنقید نگاری کا خمیر عمیق ووقیع مطالعے کے ساتھ ساتھ لہجے کی ایک ایسی متانت اور ذہانت سے تیار ہوتاہے جس میں کہیں کہیں ظرافت کا رنگ بھی جھلکتاہے۔

        علیم اللہ حالؔی کا ہمہ گیر تنقیدی Approachاس معاملے میں بھی منفرد ہے کہ تاثراتی تنقید سے نظریاتی تنقید یا تجزیاتی تنقید سے تاثراتی تنقید تک کا سفر کرتے کرتے فلسفیانہ اور نفسیاتی تنقید کی سمتوں میں بھی چلے جاتے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیاجائے تو اس اختصاص کا راز ظاہر ہوسکتاہے۔ ان کی انفرادیت کئی عوامل سے گزر کر دلکشی کی صورت پیدا کرتی ہے۔ علیم اللہ حالؔی کے نتقیدی شعور میں ایک جمالیاتی سفر کا احساس ہوتاہے، جہاں ایک Aesthetic Worldکی تلاش جاری رہتی ہے۔ جمالیاتی نظام کے لیے اوپر اٹھنے کی یہ کوشش علیم اللہ حالؔی کی تنقید میں کئی انفرادی رنگ پیداکردیتی ہے۔ ان کی انتقادی فتوحات اسی تحرک کی پیداوار ہیں۔ کوئی تنقید اپنے آپ وقیع نہیں ہوتی، تنقید نگار کی بصیرت ، مطالعہ، احساس جمال اور اس کا منفرد اسلوب اسے وقیع بنادیتاہے۔

        احساس جمال تفہیم فن کے لیے ضروری ہے۔ شاید اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تمام ناقدین اپنی تمام تر محنت کے باوجود قاری کے لیے اس وجہ سے پسندیدہ نہیں بنتے کہ ان میں احساس جمال کی کمی ہوتی ہے اور وہ تنقید کو ایک میکانکی عمل بنادیتے ہیں۔

        شاعری اور نثر نگاری دومختلف چیزیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک اچھا شاعر،ایک اچھا نثر نگار یا نثار نہیں ہوسکتا، یاایک اچھا نثر نگار ایک اچھا شاعر نہیں بن سکتا لیکن  پروفیسر علیم اللہ حالؔی کا معاملہ اس کلیے سے الگ ہے۔ وہ شاعری اور نثر نگاری دونوں میدان میں کارہاے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔

        میرا خیال یہ ہے کہ ادب پارے کی تنقید عمیق مشاہدے ، وسیع مطالعے اور حقیقی تجزیے کی متقاضی ہوتی ہے۔ جس ناقد کا مطالعہ جتنا گہرا ہوتاہے اور تجزیہ جتنا پختہ ہوتاہے، اس کی تنقید اتنی ہی توانا اور مستحکم ہوتی ہے۔ تنقید میں جہاں وجدان وادراک کی کارفرمائی ہوتی ہے وہیں انتقادی شعور واحساس کا بھی بڑا عمل دخل ہوتاہے۔ انتقادی شعور صرف مطالعے اور تجربے سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مشاہدات اور تجربات کے ساتھ ساتھ تنقید نگار میں آزادانہ غوروفکر کے عناصر بھی ہونے چاہئیں۔ تنقید میں اس سے نیا پن پیدا ہوتاہے۔ یہی نیاپن جہاں تنقید کو انفرادیت عطا کرتاہے وہیں نقاد کے اسلوب وادا میں بھی نئی بات پیدا کردیتاہے۔

        الغرض انہیں عناصر وسالمات کے ملنے سے تنقید کا قوام تیارہوتاہے۔ جب نئی تصویریں ذہن کے نہاں خانے میں ابھرتی ہیں، جب وجدان کو کوئی نئی روشنی حاصل ہوتی ہے تو حساس اور باشعور ناقد انہیں تنقید ی پیکرات میں ڈھالنے کی کوشش وکاوش کرتاہے مگر یہ کاوش لا شعوری زیادہ ہوتی ہے۔ بہر صورت محض تفنن طبع کی خاطر کی جانے والی تنقید یا غزل میں ندرت وانفرادیت کی تلاش فعل عبث ثابت ہوتی ہے کیونکہ تنقید نہ محض سپاس  نامہ ہے اور نہ محض تنقیص وتحسین کے مرغولے بنانے کا نام ہے۔ تنقید آئینہ گری اور بصیرت افروزی کا کام بھی ہے۔ مشاہدات حیات اور تجربات زندگی کے ذریعے نئی اور سچی حقیقتوں تک پہنچنے اور ادراک وفلسفے یا وجدان میں ابھرنے والے تازہ خیالوں یا ’خیال آب‘کوشعور کےساتھ گرفت میں لے کر نقد وبصر بانٹنے کا کام ہے۔ اس میں جمالیاتی ذوق کی تسکین کا بھی سروسامان مہیا کرنا پڑتاہے اور تنقیدی نکات کو کسی نئی منزل کی جانب گامزن کرنے کا بھی مرحلہ طے کرنا پڑتاہے۔ میرا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ان کی تنقید ایک بڑی تنقید کی مثال بنتی ہے، مگر یہ ضرور کہہ سکتاہوں کہ انہوں نے اپنی تنقید نگاری میں نئی لفظیات، نئے زاویوں اور نئے تراکیب واسلوب کے ذریعے موضوع اور اسلوب ہردولحاظ سے فن نقد وبصر میں رنگ آفاقیت بھرنے کی ایک کامیاب کاوش کی ہے۔

        نقاد وہی ہوتاہے جو پتھر کو تراش خراش کر ایک مجسمہ کی شکل دے دیتاہے۔ یہی Individual Talentکہلاتاہے جو Traditionسے رشتہ جوڑ کر اپنا الگ مقام بنالیتاہے۔

        علیم اللہ حالؔی نے اپنے تنقیدی اظہار میں منفرد نمایاں حیثیت اختیار کر لی ہے۔ ان کا تنقیدی معیار اور ناقدانہ وقار بہت بلند ہونے کا احساس دلاتاہے۔ انہوں نے تقریباً تمام اصناف ادب پر اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔ وہ نہ کسی ازم کے شکار ہیں اور نہ کسی مخصوص صنف ادب کے نقاد۔ وہ فکشن کے بھی ناقد ہیں اور نظم وغزل کے بھی۔ وہ ادبی تحرکات اور تغیرات کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔

        علیم اللہ حالؔی ایک صحافی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں ۔ ’انتخاب‘ان کے ادبی صحافتی کارنامے کا نتیجہ ہے۔ گویا موصوف کی ادارت میں شائع ہونے والایہ رسالہ ادبی معیاری رویوں کا آئینہ دار ہے۔ جس میں ’بیاں اپنا‘کے تحت موصوف کا تنقیدی جوہر کھلتاہے۔

        ’بیاں اپنا‘ اگر ایک طرف فنکاروں کی فطری تخلیقی شخصیات اور ان کی فنی تخلیقی حیثیات سے متعارف کراتاہے تو دوسری طرف مدیر’انتخاب‘ کے تنقیدی شعور کی قدروقیمت بھی متعین کرتاہے۔’بیاں اپنا‘ کا ایک اختصاصی وصف یہ ہے کہ یہ تنقید نگار کی تنقید ی بصیرت اور طرز اسلوب کی انفرادیت کی بھی شناخت کراتاہے۔ غرض علیم اللہ حالؔی کی تنقید نہ صرف یہ کہ فنکار کی تخلیقی نگارشات کے روشن زاویے ، سیاہ حاشیے کی بات کرتی ہے بلکہ ہنر مند شاعر وادیب کے تخلیقی اختصاص کا جائزہ بھی لیتی ہے۔ یہی تنقید کا امتیازی رنگ وآہنگ ہوتاہے جو ایک ناقد کی ناقدانہ قدرومنزلت کا اشارہ نما بنتاہے۔ کسی ناقد کا اپنے محاکمات پر مکمل یقین واعتماد ایک بڑا وصف ہے اور یہ خصوصیت علیم اللہ حالی میں موجود ہے۔ آئیے چند ایک اقتباسات سے ان امور کا اندازہ کریں:

  ’’مظہر سلیم نے اپنی جینوئن کی تخلیقیت کا مظاہرہ شروع کردیاہے۔ ’’اپنے حصے کی دھوپ‘‘ سفر کا دوسرا سنگ میل ہے اور بلا شبہ قابل اعتنا......میں مظہر سلیم سے یہ ضرور کہوں گا کہ افسانے کا فن تجاوزات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ Pin- pointedہوتاہے اور غیر ضروری وقوعوں سے اس کے تاثر کی وحدت غارت ہوجاتی ہے۔‘‘ انتخاب۔۱

            ’’نعیم صباؔ نئے شعری لب ولہجہ سے واقف ہیں اور اس بات کے کوشاں رہتے ہیں کہ وہ انہیں راستوں پر آگے نکلیں لیکن ظاہر ہے کہ نئے راستے پر چلنے کے لیے مشاقی اور تجربے کی وسعت درکارہے۔ یہ خصوصیت نعیم صباؔ کے یہاں آتے آتے آئے گی۔‘‘ انتخاب۔۱

  ’’سازؔ کے لہجے کاDetached attachementایک طرح کا کھردراپن، Established normsسے ان کی بیزاری، کچھ نیا کہنے کی بے قراری ۔ یہ سب باتیں انہیں سوداؔ کے تخلیقی رویے سے قریب کرتی ہیں۔ ان باتوں نے مل کر سازؔ کے یہاں ایک پر اسرار اجنبی لہجے کی پرورش شروع کردی ہے۔ اس لہجے پر کبھی کبھی غیر عجمی تخلیقی رویے کا گما ن ہوتاہے۔‘‘ انتخاب۔۲

  ’’حقانی الفاظ کے استعال میں اگر لسانی کرتب بازی کا مظاہرہ نہ کریں تو شاید ان کی تنقید قاری کے لیے زیادہ مفید کار بھی ہو اور زیادہ باوقار بھی۔‘‘ انتخاب۔۳

’’ فراز حامدی غزل میں دوہے یا دوہے میں غزل کی قلم لگا رہے ہیں ۔ دیکھئے غیب سے کیا ظہور میں آتاہے اور یہ نئی فصل کتنی پھلتی پھولتی ہے۔‘‘انتخاب۔۲

  ’’انور مینائی کی غزلوں میں مجھے ’ساکار، کایا، دشا، بھاؤنا، سمے ، سنگھاسن، چمتکار،شاور، Fail،دیالو اور سیما جیسے الفاظ بہت کھٹکتے ہیں۔‘‘انتخاب۔۹

    ’’وہ(طاہر فراز) غزل کے شاعر ہیں اور بہت اچھے شاعر ہیں۔ نظمیں تو انہوں نے بس یونہی لکھ دی ہیں۔ ’تاپمان، کٹھنائی اور اتہاس جیسے الفاظ وہ استعمال نہ کرتے تو اچھا تھا۔ اور حیرت ہے کہ انہوں نے’ عَرَق ‘کو’ عَرْق‘کیوں کر نظم کیا۔‘‘انتخاب۔۵

    ’’رؤف خیر کے لیے ایک مشکل مسئلہ ان کے اظہار کی بے پناہ روانی اور جولانی ہے۔ بیان کی توانائی اور بے تکان شعری اظہار انسان کو زود گو اور بسیار گو تو بنا دیتاہے مگر اکثر وبیشتر اس سے وہ تخلیقی معیار چھین لیتاہے جس کے ذریعہ VerseاورPoetryکا امتیاز سامنے آتاہے۔‘‘ انتخاب۔۹

’’ایک جنوئین فنکار اپنے آگے کے تخلیقی سفر میں تمام تر واقعات ورجحانات اور ہیجات کو ساتھ لے کر اپنی فنکاری کو زندہ رکھتاہے اور ہم عصر تحریر میں نہ صرف یہ کہ اپنی حیثیت برقرار رکھتاہے بلکہ اس میں ہرآن اضافہ کی کوشش کرتاہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ عبید قمر نے اس عرصہ میں اپنی شخصیت کی تعمیر کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی اور یہی وجہ ہے کہ ارتقاء کی منزلوں کی طرف بڑھتی ہوئی ان کی شخصیت میں ایک ٹھہراؤ سا پیداہوگیا ہے۔‘‘انتخاب۔۱۸

        ’بیاں اپنا‘ کے وسیلے سے علیم اللہ حالی نے اپنی تنقید کے لیے منفرد زبان اختیار کر لی ہے۔ موصوف کی تنقید کی زبان نہایت معیاری اور مستند اور دلکش ہے۔ ان کی تنقیدی بصیرت اور فنی قوت کے لیے ان کے شگفتہ فقرے اور شائستہ عبارت تحسین وتفہیم کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس اقتباس کو ہی لیجئے:

    ’’غزل کا آرٹ Prismکا آرٹ ہے۔ الفاظ کی ذراسی تبدیلی معانی ومفہوم کے نئے نئے نقشے بنادیتی ہے۔ ان نقشوں اور صورتوں میں لفظوں کا انعکاس کسی مرتب نظام کا پابند بھی نہیں ہوتا اور الفاظ اپنے تحرک سے ہزاروں ہزار تصویریں بناتے جاتے ہیں۔‘‘ انتخاب۔۲

        یہاں غزل کے آرٹ کو Prismسے تشبیہ دی گئی ہے جو ایک عمدہ  اور نئی مثال ہے۔ اس سے تنقید کے طبیعیاتی نظام کا احساس ہوتاہے۔ گویا الفاظ کی تخلیقیت استعاراتی طورپر ایک شعاع بن کر جب Prismatic processسے ہوکر گزرتی ہے تو وہ شعاع سات رنگوں میں منقسم ہوجاتی ہے اور متعدد تصویریں بناتی ہے۔ پروفیسر حالی کے خیال میں الفاظ کے انفرادی تحرک سے ہزاروں ہزار تصویریں بنانے کا اختراعی عمل ایک کامیاب فن کاری ہے۔ شاید یہی وہ تنقیدی وفنی محرکات ہیں جو پروفیسر حالی کی انتقادیات کو ممتاز ومنفرد بنانے میں معاون نظرآتے ہیں۔

        ’بیاں اپنا‘ کی انتقادی تحریروں میں جگہ جگہ نئی انفرادی لفظیات کا نمایاں استعمال بھی دیکھا جاسکتاہے جہاں ایک نئی لسانی تشکیلیت کا ر فرما ہوتی ہے۔ مثلاً ’ارتباط‘، ’استناد‘، ’تصویریت‘،’حاصلات‘ وغیرہ۔ ’بیاں اپنا‘ ان کے تنقیدی وفنی امتیاز کا عکاس ہے جس سے جا بجا ان کی اصیل تنقیدیت کی شعاعیں نہ صرف پھوٹتی ہوئی معلوم پڑتی ہیں بلکہ بعض مقامات پر آفتابِ نقد بن کرظاہر ہوتی ہیں۔

        پروفیسر علیم اللہ حالؔی کی تنقید نگاری کو ہم طبع زاد فنی تخلیقی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ اس سے ایک نیا وژن سامنے آتاہے جو جمالیاتی تنقیدی بصیرت کو ایک امتیاز بخش دیتاہے۔ معاصر اردو ادبی تنقید میں پروفیسر علیم اللہ حالؔی کی کاوشات انفرادی طور پر نمایاں حیثیت کا مرتبہ رکھتی ہیں۔

 

 

ڈاکٹر کلیم اختر

گورنمنٹ اردو مڈل اسکول

باقر گنج، بزازہ، پٹنہ 801505-

رابطہ:8757878127

e-mail: kalimakhtar2012@gmail.com

 

 

 
You are Visitor Number : 2506