شاعری میرے نزدیک کسی تفریح کا سامان نہیں۔ لطیف جمالیاتی حس کی تسکین تفریح سے بلند تر ایک چیز ہے۔ میں شاعری کو تزئین حیات کا بہترین ذریعہ تصور کرتا ہوں اور تزئین حیات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حیات کی خامیوں پہ نگاہ نہ ہو۔ اندھیرے سے آج تک مفاہمت نہیں کی جا سکی۔ سمٹ سا گیا ہوں لیکن ضمیر فروشی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔‘‘
۱۹۸۵ء میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام’’ زخموں کے گلاب‘‘ بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آیا جس کی نظموں پہ اقبال کے اثرات نمایاں ہیں۔ انہوں نے خود بھی اعتراف کیا کہ ’’ حرف خودی‘‘ اور ’’ زخموں کے گلاب‘‘ ان کی داستان زندگی کے دو ابواب ہیں۔ پہلے وہ ترقی پسند تھے اب مذہبی ہو گئے ہیں۔ ان کی چار کتابوں برگ حنا( مجموعہ کلام) ، افسانہ افسوں( کہانیوں کا مجموعہ) میزان تنقید، تنقیدی مضامین اور ایک مجموعہ اور رباعیات کے زیر اشاعت ہونے کی اطلاع ہے۔ نمونہ کلام کے طور پر غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
یہ دامن قابل ہے کہ اپنی ہی قبا ہے
میں سوچ رہا ہوں کہ مرے ہاتھ میںکیا ہے
دکھ درد کو مل بانٹ کے جینے کا سلیقہ
لگتا ہے کہ ہر آدمی اب بھول چکا ہے
جس سمت نظر اٹھتی ہے ویرانہ ہے گویا
صحرا مری گستاخ نگاہی کی سزا ہے
اجڑی ہوئی بستی میں کہاں سایہ دیوار
قاتل مرے ملبے پہ کھڑا ہانپ رہا ہے
دیوانوں کو نقصان کی پروا نہیں ہوتی
دشمن ہے زمانہ تو انیس آپ کیا ہے
یہ سانیٹ بھی دیکھئے
اندھیری رات میں بے دست و پا ہے تنہائی
نظر میں کچھ بھی نہیں سایہ نظر کے سوا
نہیں ہے فکر کسی کی اک اپنے گھر کے سوا
خزاں رسیدہ ہوئی زندگی کی پہنائی
ایک پابند نظم’’ اے ہم نشیں کا ابتدائی اور آخری شعر ملاحظہ ہو:
صبح ازل شام ابد، ایک نقطہ موہوم پر ملنے کے دونوں مضطرب
روحوں کا اک لمبا سفر جشموں کے سو نام و نشاں یہ منقلب وہ منقلب
افشائے راز کن فکاں ، اے ہم نشیں ، اے ہم نشیں
جب تک وصال عقل و دل ہوتا نہیں ممکن نہیں
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
*********************************