donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Anjum Manpuri
Journalist
--: Biography of Anjum Manpuri :--

 

  انجم مانپوری 

Name: Noor Mohammad
Pen Name:- Anjum Manpuri
Father's Name:- Shaikh Baqar Ali
Date of Birth:- 1881
Place of Birth::- Manpur Gaya
Date of Death:- 27 Augst 1958
Place of Lying: Karbala Qbaristan, Gaya
 
اصل نام : نور محمد
والد کا نام : شیخ باقر علی
تاریخ پیدائش : ۱۸۸۱
جائے پیدائش : مانپور ( گیا)
وفات : ۲۷اگست ۱۹۵۸
مدفن : کر بلا قبر ستان، گیا
 
انجم مانپوری نہ صرف اردو ادب بلکہ اردو صحافت میں اپنی گرانقدر خدمات سے اردو صحافت کو اعلیٰ معیار اور مقام دلا دیا ہے۔
انجم مانپوری کی ابتدائی تعلیم مولانا خیر الدین اور مولانا عبد الغفار کی نگرانی میں ہوئی۔ عربی، فارسی اور اردو ادب کا ذوق وشوق انہیں بچپن ہی سے تھا، طالب علمی کے دور میں ہی انہوں نے اس سلسلے میں ملک کے کئی اہم ادباء و شعراء سے تعلق بنایا۔ لکھنئو کا سفر کیا اور ندوۃ العلما، میں مولانا سید سلیمان ندوی کے ہم درس ہوئے۔ اس کے بعد وہ مراد آباد چلے گئے، جہاں شاہی مسجد میں مولانا احمد حسن امرو ہوی اور مولانا محمود حسن سہوانی سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد وہ اپنے وطن لوٹ آئے اور مدرسہ کنز العلوم گے،ا میں علامہ وہاب منطقی فاضل بہاری کے درس تعلیم میں شامل ہوئے۔
۱۹۰۶ میں گیا میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ان کی دستار بندی ہوئی اس موقع پر ملک کے کئی مشاہیر اور علماء جیسے   علامہ شبلی نعمانی، علامہ عبد الحق حقانی، اور مولانا عبد الوہاب منطقی وغیرہ جیسی شخصیتوں نے شرکت کی تھی۔
۱۹۱۴سے انجم مانپوری نے ایک نیم مذہبی رسالہ ’’رہ نما‘‘ کا اجراء کیا۔ اسی رسالہ سے انجم کی صحافتی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ رسالہ ناتجربہ کاری اور مالی دشوار یوں کی بناد پر زیادہ دنوں تک نہیں چلا۔ انجم مانپوری کے سامنے ذریعہ معاش کا مسٔلہ کھڑا ہوا۔تو وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر لاہور پہنچ گئے۔ جہاں ان کی ملاقات مولانا ظفر علی خاں جیسی اہم شخصیت سے ہوئی، اس زمانے میں ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ کی دھوم تھی۔ ظفر علی خاں نے از راہ عنایت انجم کو اپنے اخبار کا سب ایڈیٹر بنا دیا۔ اس اخبار کی ایڈیٹری اور ظفر علی خاں کی قربت اور پھر لاہور کی ادبی و صحافتی فضا نے انجم کے ذوق و شوق کونہ صرف جلا بخشی بلکہ بہت سارے تجربات انہوں نے اسی دورمیںحاصل کئے۔ لیکن وطن کی یاد اور اپنوں کی محبت نے انہیں پھر اپنے وطن لوٹنے پر مجبور کیا اور یہاں آکر انہوں نے ذاتی کاروبار شروع کیا اور ’’انجم کمپنی‘‘ کو کافی فروغ دیا۔ معاشی طور پر جب وہ پوری طرح کامیاب ہو گئے تو ایک بار پھر اردو ادب و صحافت کی جانب رجوع کیا اور جون ۱۹۳۱ سے ایک بے حد معیاری ماہنامہ ’’ندیم‘‘ کا اجراء کیا۔ اس وقت ان کی مشکل پسندی کی تعریف کرنا ہوگی کہ اس زمانے میں گیا میں کتابت و طباعت کی سہولیات میسر نہیں تھیں، پھر بھی ہمت و حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اور تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ، وہ ’’ندیم‘‘ نکالتے رہے اور اپنی فکری، فنی صلاحیتوں سے اس رسالہ کو صف اوّل کا رسالہ بنا دیا۔ خاص طور پر انہوں نے ’’ندیم‘‘ کے ۱۹۳۲، ۱۹۳۳اور ۱۹۳۵ میں تاریخ ساز خاص نمبر ’’بہار نمبر‘‘ شائع کر کے صحافتی تاریخ مرتب کر دی ۔ بہار کی اردو صحافت، ان خاص نمبروں کے ذکر کے بغیر کسی بھی لحاظ سے مکمل نہیں ہو سکتی۔ ۱۹۳۸ تک یہ رسالہ اسی آب و تاب اور شان سے شائع ہوتا رہا اور دھیرے دھیرے انجم کی بڑھتی ہوئی کاروباری مشغولیت اور علالت نے آگے کا صحافتی سفر جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی اور انہوں نے ’’ندیم‘‘ کو سید ریاست علی ندوی کے سپرد کر دیا۔
اپنی پوری صحافتی زندگی میں انجم مانپوری نے ادبی صحافت کاجو معیار اور وقار قائم کیا، وہ یقینا آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ’’ندیم‘‘ کے بہار نمبر کی شہرت اور مقبولیت اسی طرح برقرار ہے اور اس زمانے کے مقابلے اس زمانے میں زیادہ وسائل مہیا ہونے کے باوجود کسی نے بہار نمبر یا اس نوع کا کوئی خاص نمبر نہیں شائع کر سکے۔
انجم مانپوری کو جو شہرت و مقبولیت بحیثیت طنز و منراح نگار کے ملی، اس سے کم شہرت ان کی بحیثیت صحافی نہیں ہے۔ ۱۹۵۰میں گیا سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ ’’کرن‘‘ کے نگراں بنے۔ لیکن چند شماروں کے بعد وہ بھی بند ہو گیا۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)

 

 
You are Visitor Number : 5912