donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Azim Iqbal
Writer
--: Biography of Azim Iqbal :--

Azim Iqbal           عظیم اقبال 

 

 

نام: عزیز احمد
قلمی نام: عظیم اقبال
والد کا نام: عین الحق 
تاریخ ولادت : ۲۴؍جولائی ۱۹۴۴ء
تعلیم: ایم اے ،اقتصادیات،
ملازمت : درس وتدریس
پہلا افسانہ: بیسوی صدی، دہلی سالنامہ ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔
افسانوں کی تعداد : تقریبا ًدوسوافسانے، بیسویں صدی، دہلی ، شمع ، دہلی، بانو، دہلی، آج کل، دہلی ، زبان کا وادب، پٹنہ، شاعر، ممبئی، پرواز ادب، لدھیانہ ، اور ، ایوان اردو، دہلی وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ جو کہا نہیں جاتا، کو بہار اردوواکادمی انعام سے نواز چکی ہے۔
افسانوی مجموعے: تین ،۱۔ اپنی آہٹیں ۔۱۹۷۹ء،۲۔ جو کہانہیں جاتا۔۱۹۸۵ء ،۳۔ حرف حرف داستاں ۔۱۹۸۸ء 
دیگر تصانیف وغیرہ:چند مقالے کچھ بابی ڈرامے اور بہت سے ادبی، معلوماتی اور نفسیاتی مضامین لکھ چکے ہیں کچھ ہندی افسانوں کے ترجمے بھی کرچکے ہیں۔ کچھ افسانے ہندی، پنجابی اور کنٹرمیں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ 
عظیم اقبال ہندوستان کے ایک ایسے افسانہ نگار ہیںجنہوں نے بہت جلد اپنی شناخت بنال ہے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے بہت سے افسانہ نگاروں  کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور خود آگے نکل گئے ہیں، آج ان کا شمار بہار کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے یوں تو بتیا میں اور بھی کئی اچھے افسانہ نگار ہیں لیکن ان کی حیثیت منفرد ہے انہوں نے افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۶۶ء سے کیا یہ دوراردو افسانہ نگاری کا تیسرا دور کہا جاتا ہے اس ودر یں اردو افسانے نے ایک نئی کروٹ لی جدید یت کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ کیا چھوٹے کیا بڑے سب خس وخاشاک کی طرح اس لہر میں بہہ نکلے افسانہ نگاری کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ گئے لیکن اس وقت بھی بہار کے بعض افسانہ نگار ایسے تھے جنہیں اس بات کا احساس تھا کہ کہانی کو کہانی ہی رہنی چاہئے اس میں اس کا خاص عنصر قصہ پن باقی رہنا چاہئے، عظیم اقبال بھی انہیں میں سے ایک ہیں انہوں نے ہمیشہ اس بات کا لحاظ رکھا کہ کہانی کے ذریعہ عوام کی اصلاح کی جائے سماج کی جڑوں میں پوشیدہ برائیاں سامنے آئیں اور اس کا ازالہ ہو سکے ، اس لئے انہوں نے کہانی کو کہانی ہی رہنے دیا اسے اس طرح برتاکہ کم پڑھا لکھا بھی اسے آسانی سے سمجھ سکے۔ 
ان کی آنکھوں کی بے کلی کبھی کبھی مجھے بے طرح کھل جاتی ان کے چہرے کی سوگواری مجھے بھی اداس کردیتی گھنٹوں گم صم لان میں ٹہلا کرتیں، سائبان کے کھمبے سے ٹکی ہوئی ملول سی کھڑی رہتیں کبھی یوں ہی دیوار پرانگلیوں سے آڑی ترچھی لیکریں کھینچتی ہوتیں۔’’آئینہ یہاں ہے‘‘
عظیم اقبال کی حیثیت ہر لحاظ سے نمایاں ہے لیکن اتنا کچھ ہونے پر بھی اردو کے نقادوں نے ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے ان کا ادبی مقام متعین کئے جانے کی ضرورت بہت پہلے سے محسوس کی جارہی ہے لیکن اب تک کسی نقاد نے سنجیدگی کے ساتھ ان کے فن کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
عظیم اقبال کے بیشتر افسانے خوبصورت اور فن کے بہتر نمونے  ہیں، انہوں نے کبھی کسی خاص مسلک کی پیروی نہیں کی۔ وہ انسانی نفسیات میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے خود ہی اپنی افسانہ نگاری کے سلسلے میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے میں کسی خاص مسلک کا پیرو نہیں ہوں، میں خصوصاًانسانی نفسیات میں دلچسپی رکھتا ہوں میرے افسانے مختلف انسانی رشتوں کے شکست دریخت کے عکاس ہیں، دورحاضر کے متعلق ان کا خیال ہے۔اچھے اور برے، قابل ذکر اور ناقابل ذکر، دل پذیر اور ناپسندیدہ ہر قسم کے افسانے لکھے جارہے ہیں، افسانے دل کو چھونے والے ہونے چاہئیں ایسے افسانے مشاہدہ اور ریاضت کے بغیر نہیں لکھے جاسکتے اردو کا عام افسانہ نگار، مشاہدہ اور ریاضت کے ساتھ ساتھ تقابلی ادبی کا وشو ں سے دامن چھڑاتا ہے۔ مختصر یہ کہ عظیم اقبال نے افسانہ نگاری کے میدان میں مخصوص جگہ حاصل کرلی ہے ان کے افسانوں کودیکھتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں وہ افسانہ نگاری کے دامن کو اور بھی وسیع کریں گے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 
 
You are Visitor Number : 1486