نمونہ کلام کے طور پر ایک حمدیہ نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں ؎
مؤدت میں دلِ محبوب کے انداز و غمزہ میں
خجالت میں عمر فاروقؓ کے ایمان حمزہؓ میں
اُحد کے روز زخموں سے بھرے میدان میں تو ہے
عروسِ شب، عریس صبح کے ارمان میں تو ہے
افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد ۲۰۰۲ء کے اوائل میں لکھی گئی نظم’’ ضرب کلیمی‘‘ کے یہ بند بھی دعوت فکر دیتے ہیں
تمہیں فسانۂ ادبار دے رہا ہے سبق
تمہارا مصحف کردار دے رہا ہے سبق
عدو کا لشکر کرّار دے رہا ہے سبق
سقوط کابل و قندھار دے رہا ہے سبق
عوض میں جام کے شمشیر بیچ دی تم نے
حدیثِ حسن کی تفسیر بیچ دی تم نے
تمہیں بسالت بدر و احد کا پاس نہیں
کہ تم شجاعت خندق سے روشناس نہیں
کتابِ جرأت ایماں کا اقتباس نہیں
با ایں ہمہ تمہیں احساس بود راس نہیں
جہاں کو ضرب کلیمی کی آج حاجت ہے
کلیم وقت ہی فرعون کی ضرورت ہے
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
***************************