donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Badiuz Zaman Sehar
Poet
--: Biography of Badiuz Zaman Sehar :--

 

 بدیع الزماں سحر 
 
محمد بدیع الزماں نام اور سحرؔ تخلص ہے۔ سند کے مطابق ۱۱ جولائی ۱۹۴۴ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد محترم حکیم نور الہدیٰ اور والدہ سعیدہ خاتون کی نگرانی میں گھر پہ حاصل کی۔ بالآخر پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے ( سماجیات) کا امتحان ۱۹۶۴ء میں پاس کیا اور تجارت سے وابستہ ہو گئے۔بدیع الزماں سحر کا تعلق بہار کے ایک معزز دین دار مشہور و معروف اور مخیر خاندان سے ہے۔ نورانی دوا خانہ اور نورانی باغ کے حوالے سے یہ خانوادہ ملک اور بیرون ملک میں ایک امتیازی پہچان رکھتا ہے۔ ایک عرصے تک ملک کے اہم سیاسی و سماجی رہنما یہاں سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ خاندانی پیشہ طبابت اور جڑی بوٹیوں کی کاشتکاری تھا جو ۲۰۰۲ء میں سحرؔبڑے بھائی ڈاکٹر صدر الزماں کی وفات کے بعد بھی حکیم خلیق الزماں کی نگرانی میں جاری ہے۔ مگر موجودہ نسل نے اس میں وسعت پیدا کرتے ہوئے تجارت کے بعض نئے شعبوں کا بھی رخ کیا ہے۔ ایک بھائی ڈاکٹر  شکیل الزماں حکومت بہار میں وزیر رہ چکے ہیں۔ اور اب دہلی میں کانگریس کی سرگرم سیاست سے وابستہ ہیں۔ سحر کے والد جس طرح خدمت خلق میں یکتائے روز گار تھے اسی طرح علماء و ادباکیء شعراء اور حکماء کی سرپرستی اور قدر دانی میں بے مثال تھی۔ اس کے سبب سحر کو اپنے عہد کے مستند ادباء و شعراء سے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کے مواقع ملے۔ جس کے سبب ان میں اوائل عمر سے ہی ادبی ذوق پیدا ہو گیا۔ اور انہوں نے ۱۹۵۹ء کے آس پاس غزل گوئی شروع کی۔
 
 سحر بے حد حساس اور درد مند دل کے مالک ہیں یہ خوبی انہیں وراثت میں ملی ہے اور شعر و سخن کے گیسوئے سنوارنے میں ہر قدم پہ ان کی معاون رہی ہے۔ ان کے ذہن کا سانچہ مذہبی  ہے۔ شاید اسی لئے وہ دنیا کے پر تشدد واقعات اور خاص طور پر یہ عالم اسلام میں رونما ہوئے حادثات سے فوری طور پر تاثر ہوتے اور اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ بصورت دیگر ہفتوں ان کے تخلیقی سوتے خشک رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ان کی شریک حیات نگار سلطانہ کا یہ بیان بے حد اہم ہے
 
 ’’ سحر صاحب عالم اسلام میں ہونے والے واقعات کا بڑا گہرا اثر لیتے ہیں۔ اس کیفیت میں جب ان کی طبیعت موزوں ہوتی تو اکثر ان کی آنکھیں بھی اشک بار ہو جاتیں اور جب میں ان کو اس کیفیت میں دیکھتی تو بالکل مخل نہیں ہوتی اور نہ ان سے خود مخاطب ہونے کی کوشش کرتی۔ کلام کی آمد سے قبل وہ اچانک بالکل خاموش اور غیر متحرک ہو جاتے ہیں اور سر جھکائے بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو ہچکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہو جاتا ہے۔‘‘؎
 
سحر نے نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔ اور قطعات بھی لیکن ان کی تخلیقی قوت اور انفرادیت کا بھر پور اظہار یا تو نظموں میں ہوا ہے یا چند ایسے قطعات میں جو ان کے تہذیبی اور مذہبی شعور کا آئینہ ہیں۔ ان کی نظموں کا سر سری مطالعہ بھی فارسی و عربی زبان و ادب سے ان کی واقفیت اسلامی تہذیب و شعائر سے ان کی قربت ، تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کی کثرت، فکر و نظر کی وسعت، گہری بصیت اور بالیدہ شعوریت کا احساس دلاتا ہے۔بعض نظموں میں اقبال کی باز گشت واضح طور پر سنائی دیتی ہے۔ ہنگامی اور عارضی نوعیت کے موضوعات (Topical Issues )پر لکھی گئی نظموں کو بھی وہ اپنے تخلیقی شعور سے بہرہ ور کرکے مستقل معنویت عطا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
 
ان کا پہلا مجموعہ’’ عکس سحر‘‘ ۲۰۰۲ء اور دوسرا ’’ نقش سحر‘‘ ۲۰۰۶ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ بقول مرتب ڈاکٹر اسلم جاوداں پہلے میں موضوعاتی بو قلمونی ہے تو دوسرے میں شاعر کا بنیادی موضوع عالم اسلام ہے۔ ایک کتابچہ الکوثر ( تفسیر و تفہیم سورہ الکوثر) رقصِ سحر( مجموعہ کلام) اور منظوم سیرت نبوی کے زیر اشاعت ہونے کی خبر ہے۔
 
نمونہ کلام کے طور پر ایک حمدیہ نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں    ؎
 
مؤدت میں دلِ محبوب کے انداز و غمزہ میں
 خجالت میں عمر فاروقؓ کے ایمان حمزہؓ میں
اُحد کے روز زخموں سے بھرے میدان میں تو ہے
 عروسِ شب، عریس صبح کے ارمان میں تو ہے
 
 افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد ۲۰۰۲ء کے اوائل میں لکھی گئی نظم’’ ضرب کلیمی‘‘ کے یہ بند بھی دعوت فکر دیتے ہیں
 
 تمہیں فسانۂ ادبار دے رہا ہے سبق
تمہارا مصحف کردار دے رہا ہے سبق
عدو کا لشکر کرّار دے رہا ہے سبق
سقوط کابل و قندھار دے رہا ہے سبق
عوض میں جام کے شمشیر بیچ دی تم نے
 حدیثِ حسن کی تفسیر بیچ دی تم نے
 تمہیں بسالت بدر و احد کا پاس نہیں
کہ تم شجاعت خندق سے روشناس نہیں
 کتابِ جرأت ایماں کا اقتباس نہیں
با ایں ہمہ تمہیں احساس بود راس نہیں
 جہاں کو ضرب کلیمی کی آج حاجت ہے
کلیم وقت ہی فرعون کی ضرورت ہے
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
***************************
 

 

 
You are Visitor Number : 1640