donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Bedil Azimabadi1
Poet
--: Biography of Bedil Azimabadi1 :--

 

 بیدل عظیم آبادی 
 
 
عبد المنان ( تخلص بیدل) کا آبائی وطن موضع ڈیانواں (ضلع پٹنہ ) ہے۔ بقول قمر اعظم ہاشمی ( کتاب: بہار) کے نظم نگر شعراء یکم جولائی ۱۸۹۴ء کوآرہ میں پیدا ہوئے۔ آرہ ضلع اسکول او رپٹنہ کالجیٹ اسکول کے طالب علم رہے۔ پٹنہ کالج سے بی اے اور ۱۹۱۹ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا پہلے مدرسہ عالیہ کلکتہ میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ بعد میں پٹنہ کالج میں ۱۹۲۷ء میں فارسی اور اردو کے لکچرر بحال ہوئے۔ استاد کی حیثیت سے بے حد مقبول و معروف رہے۔ اور پٹنہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے ۔ ترقی کرتے ہوئے صدر شعبہ کے عہدہ تک پہنچے۔۱۹۴۸ء میں پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ ۱۹۴۹ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور تاحیات رمنہ روڈ پٹنہ میں مقیم رہے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۸۲ء کو انتقال ہوا۔ ان کی حیات اور شاعری سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ ( زیر نگرانی اعجاز علی ارشد ) لکھ کر شہناز بیگم نے پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
 
بیدل کا مجموعہ کلام’’ نوائے بیدل‘‘ کے نام سے ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا جس میں چھیاسی غزلیں اور بارہ نظمیں شامل ہیں۔ اس کے مرتب ان کے شاگرد پروفیسر سید حسن تھے۔ ابتداء میں حسن صاحب کے پیش لفظ کے علاوہ پروفیسر اختر اورینوی کا ایک مقدمہ بھی شریک اشاعت ہے۔ مجموعے کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی سب سے پہلی غزل ۱۹۱۷ء کی ہے جو رنجور عظیم آبادی کی دولت کدے واقع کلکتہ میں منعقدہ مشاعرے میں پڑھی گئی تھی۔ جب کہ آخری غزل ۱۹۴۵ء کی ہے جو ٹی این بی کالج بھاگلپور کے مشاعرے میں سنائی گئی۔ ظاہر ہے انہوں نے اس کے بعد بھی غزلیں اور نظمیں کہی ہوں گی مگر اب ان کا سراع نہیں ملتا۔ ان کے بارے میں عتیق الرحمن کی یہ رائے قابل توجہ ہے( مقالہ مطبوعہ زبان و ادب پٹنہ جنوری فروری ۲۰۰۷ئ)
 
’’ بیدل عظیم آبادی بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات کے شیدائی اور قدیم روایات کے پجاری ہیں۔ اس لئے ان کی شاعری میں گرچہ جا بجا جدیدیت کے بعض عناصر ملتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ قدیم نظریات و خیالات اور کلا سیکیت کے ترجمان ہیں۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ بیدل کی غزلوں میں زبان و بیان کی آراستگی اور بھر پور تغزل کی کیفیت ہی ان کی پہچان ہے۔ ویسے ایک ماہر استاد کی حیثیت سے انہوں نے کئی ادبی نسلوں کی ذہنی تربیت میں جو رول ادا کیا ہے وہ زیادہ قابل قدر ہے۔
 
 نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
 
 جب کوئی بے نیاز ہو کہئے تو کیا کریں
تسلیم اپنا شیوہ کریں یا رضا کریں
احوالِ دل حضور سے جب ہم کہا کریں
 یارو کریں کریں نہ کریں سن لیا کریں
پورا نہ ہو نہ ہو کوئی وعدہ نیا کریں
 ہاں یوں ہی وہ علاج دل مبتلا کریں 
 بے حس مجھے تغافل سنگین نے کر دیا
 یکساں ہے اب وہ ظلم کریں یا وفا کریں 
ان کو یہ انتظار کہ یہ ہم سے کچھ کہے
 ہم کو یہ انتشار کہ کیا التجا کریں
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
***************************
 

 

 
You are Visitor Number : 1680