بہزاد فاطمی نے اپنی شاعری کے حوالے سے ’’ نقوش بہزاد‘‘ میں لکھا تھا۔
’’ میری پرورش کلاسیکی شاعری کی معتبر روایتوں او رمفکرانہ غزل سرائی کی تہذیب خاص کے ماحول میں ہوئی۔ لہذا آپ میری غزلوں میں اس کی تھوڑی سی جھلک ضرور پائیں گے۔ شعر و ادب میں ترقی پسندی کا دور آیا تو اس تحریک نے کافی متاثر کیا لیکن بعض مجبوریوں کی بناء پر اس تحریک سے وابستہ نہ ہو سکا۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے امتیازات کی نشاندہی اس طرح کی ہے
’’ شاد عظیم آبادی کی راہ پر چلنے والوں میں بہزاد کی اپنی جگہ ہے لیکن ان کے کلام میں بعض ایسی شوخیاں ہیں جو شاید کے یہاں نہیں ملتیں۔ بہزاد روایت سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کرتے لیکن زمانے کی تبدیلیوں سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں نئی روشنی ہیتی نظام کو شکستہ نہیں کرتی بلکہ شاعری کی ان ہی روایات کی امین ٹھہرتی ہے جن سے ہمارے متاخرین اور مقتدمین وابستہ رہے ہیں۔ پھر بھی زبان کی دل پذیری اور شگفتگی کی وجہ سے ان کا کلام پر کشش بن جاتا ہے۔
نمونہ کلام کے طورپر ایک غزل درجذیل ہے
وجہ شہرت تری آشفتہ سری میری ہے
شہر تیرا ہی سہی دربدری میری ہے
چن لیا لاکھ خدائوں میں پرستش کے لئے
حسن تیرا ہی سہی دیدہ وری میری ہے
ہے خبر موسم سفاک کی مجھ کو لیکن
بارش سنگ میں بھی شیشہ گری میری ہے
ہو کے آزاد بھی قید قفس ہی میں رہا
ہائے کیا چیز یہ بال و پری میری ہےاب تو مانوس ہوں اس درجہ غموں سے بہزادؔ
بزم احباب میں بھی نوحہ گری میری ہے
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
***********************************