donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Behzad Fatmi
Poet/Writer
--: Biography of Behzad Fatmi :--

 

 بہزاد فاطمی 
 
 
سید سلطان احمد ( قلمی نام بہزاد فاطمی)سید حسین خاں کے بیٹے اور شاد عظیم آبادی کے پوتے تھے۔ ۲۱ اکتوبر ۱۹۱۴ء کو پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔۱۹۳۱ء میں میٹرک پاس کیا ۔ ۱۹۳۹ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی میں آنرز کیا۔ اور ۱۹۴۳ء میں بہار سول سروس سے وابستہ ہو کر ۱۹۷۵ء میں ڈسٹرکٹ ویلفیئر افسر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر کیا۔ اس کے بعد مستقل طور پر پٹنہ کے بورنگ روڈ واقع اپنے اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کر لی۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء تک مستقل یکے بعد گیرے اپنے عزیزوں کی وفات کے تقریباً دو ماہ بعد ۳ مئی ۲۰۰۸ء کو سہواگ نرسنگ ہوم پٹنہ میں انتقال ہوا اور افضل پور قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ بہزاد فاطمی جس علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اس پر ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کی مثال صادق آتی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جو علمی و ادبی شعور اپنے آباء و اجداد سے حاصل کیا ہے اسے اپنی اگلی نسلوں کو کامیابی کے ساتھ منتقل کیا ہے۔ان کی بیٹی شہناز فاطمی اور بیٹے انجم فاطمی شعر و ادب سے وابستگی کا ثبوت اہم ادبی تصنیفات کی شکل میں موجود ہے۔
 
 بہزاد فاطمی شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی۔ ان کی شعر گوئی کا آغاز جنوری ۱۹۲۹ء میں ’’ انجمن تلامیذ الرحمن‘‘ کے سالانہ طرحی مشاعرے سے ہوا۔ پہلی غزل کے دو اشعار انہوں نے ’’ سازغزل‘‘ کے دیباچہ ’’ نسبت گلوں سے ہے مگر …‘‘ کے زیر عنوان سے درج کئے ہیں جو اس طرح ہیں۔
 
 کون کہتا ہے کہ شرمندہ احساں نہ رہا
 زخم اپنا کبھی محروم نمک داں نہ رہا
 دستِ وحشت کی درازی کا نہ پوچھو احوال
 آستیں کو جو بچایا تو گریباں نہ رہا
 
ابتداء میں بہزاد عظیم آبادی کے نام سے کچھ غزلیں کہیں ۔ پھر ۳۶۔۱۹۳۵ء کے قریب بہزاد لکھنوی کے تخلص سے مشابہت کے سبب بہزاد فاطمی کا قلمی نام اختیار کر لیا۔ ۱۹۳۳ء میں والد کی رحلت اور ۱۹۳۴ء مے ہولناک زلزلے نے ان کے معاشی حالات کے ساتھ ساتھ ادبی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ مگر ذوق شاعری زندہ رہا۔ سرکاری ملازمت کے دوران مستقل تبادلوںکے سبب خاصا سرمایہ ادب برباد بھی ہوا۔ ریٹائر منٹ کے بعد کچھ منتشر کاغذات ترتیب دے کر تو ایک مجموعہ کلام ’’ نقوش بہزاد‘‘ (مرتبہ شہنازفاطمی) منظر عام پر آیا۔ ۱۹۸۷ء میں مضامین کا ایک مجموعہ’’ یہ فسانہ زلف دراز کا ‘‘ اور ۱۹۹۶ء میں غزلوں کا مجموعہ’’ سازغزل‘‘ بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون س شائع ہوا۔ ان تینوں کتابوں پر اکادمی سے انعام بھی ملا۔ ابتدائی ایام میں ان کا کلام ’’ سرفراز ‘‘ لکھنو نیرنگ خیال( لاہور) عالمگیر ( لاہور) سہیل ( گیا) ندیم( گیا) وغیرہ میں شائع ہوا۔ بعد کے دنوں میں عظیم آباد کے اہم ادبی رسائل مثلاً زبان و ادب اور مریخ اور اردو نامہ وغیرہ میں غزلیں چھپتی رہیں۔ مگر سمجھتا ہوں کہ ان کی اصل اہمیت شاد عظیم آبادی کے مورخ کی ہے شاد کے عہد اور اس عہد کے ادبی ماحول کا تذکرہ جس متانت اور درد مندی کے ساتھ انہوں نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس باب میں ان کی نثری کتاب’’ یہ فسانہ زلف دراز کا ‘‘ دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ اور ان کی نثر نگاری کا یہ پہلو قابل تعریف ہے کہ تاریخی حقائق کی پیش کش کے باوجود اسلوب کی شگفتگی اور تخلیقی صورت متاثر نہیں ہوتی۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ وہ ایک ایسے راوی ہیں جس نے شاد جیسے عظیم شاعر کا براہ راست مشاہدہ و مطالعہ کیا ہے۔ شاید اسی لئے ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ شاد پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دینے میں گذرا ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’ نبیرہ شاد‘‘کی اضافت سے علیحدہ ہو کر ان کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ان کی انفرادیت واضح ہو سکے۔
 
بہزاد فاطمی نے اپنی شاعری کے حوالے سے ’’ نقوش بہزاد‘‘ میں لکھا تھا۔
’’ میری پرورش کلاسیکی شاعری کی معتبر روایتوں او رمفکرانہ غزل سرائی کی تہذیب خاص کے ماحول میں ہوئی۔ لہذا آپ میری غزلوں میں اس کی تھوڑی سی جھلک ضرور پائیں گے۔ شعر و ادب میں ترقی پسندی کا دور آیا تو اس تحریک نے کافی متاثر کیا لیکن بعض مجبوریوں کی بناء پر اس تحریک سے وابستہ نہ ہو سکا۔
 
پروفیسر وہاب اشرفی نے ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے امتیازات کی نشاندہی اس طرح کی ہے
’’ شاد عظیم آبادی کی راہ پر چلنے والوں میں بہزاد کی اپنی جگہ ہے لیکن ان کے کلام میں بعض ایسی شوخیاں ہیں جو شاید کے یہاں نہیں ملتیں۔ بہزاد روایت سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کرتے لیکن زمانے کی تبدیلیوں سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں نئی روشنی ہیتی نظام کو شکستہ نہیں کرتی بلکہ شاعری کی ان ہی روایات کی امین ٹھہرتی ہے جن سے ہمارے متاخرین اور مقتدمین وابستہ رہے ہیں۔ پھر بھی زبان کی دل پذیری اور شگفتگی کی وجہ سے ان کا کلام پر کشش بن جاتا ہے۔
 
نمونہ کلام کے طورپر ایک غزل درجذیل ہے
 
 وجہ شہرت تری آشفتہ سری میری ہے
 شہر تیرا ہی سہی دربدری میری ہے
 چن لیا لاکھ خدائوں میں پرستش کے لئے
 حسن تیرا ہی سہی دیدہ وری میری ہے
 ہے خبر موسم سفاک کی مجھ کو لیکن
 بارش سنگ میں بھی شیشہ گری میری ہے
 ہو کے آزاد بھی قید قفس ہی میں رہا
ہائے کیا چیز یہ بال و پری میری ہےاب تو مانوس ہوں اس درجہ غموں سے بہزادؔ
بزم احباب میں بھی نوحہ گری میری ہے
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
***********************************

 

 
You are Visitor Number : 1788