donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Farahim Ahmad Sharib
Poet
--: Biography of Farahim Ahmad Sharib :--

 

 فراہیم احمد شارب 
 
 
 فراہیم احمد (تخلص شاربؔ) ولد محمد شمائل تعلیمی سند کے مطابق ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۹ء کو عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی مذہبی تعلیم کے بعد اسکول اور کالج سے اسناد حاصل کیں۔ پٹنہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کرنے کے بعد تکنیکی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور جونیئر میکا نیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جونیئر انجینئر میکا نیکل کی حیثیت سے حکومت بہار کے محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں 1966 میں ملازمت کر لی۔ جہاں سے تقریباً تیس سال ملازمت کرنے کے بعد ۱۹۹۶ء میں سبکدوش ہو گئے۔ فی الحال محلہ پیرویس( عالم گنج ، پٹنہ) میں مقیم رہ کر علم و ادب کی خدمت میں مشغول ہیں۔ 
 
شارب کا تعلق بہار کے ایک معروف خانوادے سے ہے جہاں علم و ادب اور حکمت کے اسرار و رموز سے آشنائی عام تھی۔ انہوں نے بھی اپنی وراثت کے اثرات قبول کئے مگر ان کے ادبی ذوق کی آبیاری معروف شاعر رمز عظیم آبادی کی مرہون منت رہی ۔ استاد کی رہنمائی سے انہیں سب سے بڑا فائدہ  یہ ہوا کہ انہوں نے نظم گوئی کی جانب بھر پور توجہ دی۔ اور اس صنف سخن کے بیشتر فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خوبصورت نظمیں لکھیں۔ خود اپنا مذہبی رجحان بھی ان کے تخلیقی سفر میں معاون رہا۔ اس طرح پابند نظم نگاری کی جو روایت دور حاضر میں تقریباً ختم ہو چکی تھی اسے شارب نے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے کی سعی کی۔ گرچہ انہوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں اور دوسری اصناف سخن پہ بھی گاہے گاہے طبع آزمائی کرتے رہے ہیں مگر اب تک ان کا کوئی مجموعہ کلام منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ شارب کا تعلق بھی اسی خانوادے سے ہے۔ جس سے معروف نظم نگار بدیع الزماں سحر وابستہ ہیں۔ دونوں کی فکر میں بھی مشابہت کے پہلو موجود ہیں۔ نمونہ کلام کے طور پر ان کی نظم ’’ فاتح باب کعبہ ‘‘ کے چند بند پیش خدمت ہیں۔ جن سے ان کے رنگ سخن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔؎
 
چہرہ بے نور تھا زرد رخسار تھے
 ہونٹ سوکے تھے سینے میں انگار تھے 
ظلم کے ہر طرف گرم بازار تھے
 بت شکن بھی بتوں کے طرفدار تھے
 یہ زمیں دل ہی دل میں مچلتی رہی
 شمع مومی کی صورت پگھلتی رہی
 کیا عرب کیا عجم! سب کا اک حال تھا
 شرک و تکفیر کا ہر طرف جال تھا
 فکر و دانش میں لرزش تھی بھونچال تھا
 جذبہ توحید کا دل میں پامال تھا
 رنگ چڑھتا نہ تھا دل کی تصویر پر
 لوگ نازاں تھے آذر کی تقدیر پر
جس پہ نازاں تھے ابراہیمی ہم سفر
 بت کدوں میں تھا پہلا خدا کا یہ گھر
رنگ وحدت کا باقی نہ تھا کچھ اثر
 یہ حرم تھا بتوں کا نیا مستقر
درد رکھتے تھے کعبہ کا وہ جس طرح
 مانتے تھے ھبل کو خدا کس طرح
 ختم ہوتا نہ تھا گمرہی کا سفر
 صید افسوں گری تھی محاسب نظر
 تک رہے تھے زمیں کو نجوم سحر
آنے والا تھا دنیا میں خیر البشر
جس نبی کی شہادت رسولوں نے دی
 اس کے آنے کی ساعت بھی نزدیک تھی
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*************
 
You are Visitor Number : 1485