donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Fasihuddin Balkhi
Writer
--: Biography of Fasihuddin Balkhi :--

 

 فصیح الدین بلخی 
 
 
 سید فصیح الدین بلخی ولد ڈاکٹر غیاث الدین بلخی 10 فروری ۱۸۸۵ء کو بخشی محلہ پٹنہ سیٹی کے آبائی مکان میں پیدا ہوئے۔ یہ صوبہ بہار کا ایک ایسا خانوادہ ہے جس کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘گرد و پیش کا ماحول بھی خالص بھی خالص علمی ادبی تھا۔ اس لئے صرف پندرہ برس کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہو جانے کے باوجود کلکتہ یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد منشی فاضل کا امتحان بھی امتیاز کے ساتھ پاس کرنے کے بعد ابتداء میں پونا ملٹری اسکول اور پھر فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں پڑھاتے رہے۔ کچھ برسوں تک حکومت کی فیجی کی عدالت عالیہ میں ترجمان رہے پھر قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد حکومت بہار کی ملازمت میں آگئے۔ ۱۹۱۴ کے آس پاس فوجی ملازمت اختیار کر لی اور پانچ برسوں تک دنیا کے مختلف ملکوں مثلاً شام، فلسطین، مصر، عراق اور لبنان وغیرہ میں کام کرتے رہے۔ جونپور میں سب ڈپٹی کا عہدہ ملا مگر ۱۹۲۱ء کے آس پاس فوجی ملازمت اختیار کر لی اور پانچ برسوں تک دنیا کے مختلف ملکوں مثلاً شام ،فلسطین، مصر، عراق اور لبنان وغیرہ میں کام کرتے رہے۔جونپورمیںسب ڈپٹی کا عہدہ ملا مگر ۱۹۲۱ء کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لینے کے سبب اسے قبول نہیں کیا اور کئی برسوں تک معاشی پریشانیوں میں مبتلا رہے۔ بالآخر ۱۹۲۶ء سے ۱۹۴۷تک ریاست سرائے کیلا میں ریونیو افسر اور مجسٹریٹ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پنشن یافتہ ہونے کے بعد ۱۹۶۰ء پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ مخطوطات میں کام کیا اور اپنی بہترین تنظیمی و علمی صلاحیتوں کے سبب اسے ایک نئی شکل دینے میں کامیاب رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد وہ اپنا آبائی مکان چھوڑ کر گذری بازار پٹنہ سیٹی ( موجودہ محمڈن اینگلو عربک اسکول کی پشت پر) رہنے لگے۔ وہیں ۱۴؍ مارچ ۱۹۶۲ء ( بمطابق ۱۳۸۱ھ ) کو وفات پائی اور دو ندی بازار پٹنہ سیٹی کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔ جمیل مظہری نے قطعہ تاریخ کہا
 
 بادل شاداب ہاتف ہم کو دیتا ہے خبر
کہ فصیح الدین بلخی آج ہے شبلی کے پاس
 ۱۳۸۱ھ
فصیح الدین بلخی واقعتاً مولانا شبلی کی راہ پر چلنے والوں میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ویسے تو وہ ایک معلم اور کامیاب افسر کی حیثیت سے بھی مشہور ہے مگر نیادی طور پر وہ مورخ اور محقق ہی ہیں اور انہوں نے تحقیق کے بعض ایسے میدانوں میں قدم رکھا ہے جو اس سے قبل تقریباً نا دیدہ تھے۔ مشہور مورخ سید حسن عسکری نے کئی جگہ پر ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ مگر یہ بات قابل فسوس ہے کہ ان کی زیادہ تر تصنیفات اچھی طرح زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں اور کچھ غیر مطبوعہ رہ گئیں۔ ان کی پہلی کتاب’’ تاریخ مگدھ‘‘ ( انجمن ترقی اردو ہند( دہلی) سے ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئی۔ دوسری کتاب تذکرہ’’ تذکرہ نسواں ہند‘‘ ۱۹۵۹ء میں منظر عام پر آئی۔ دونوں ہی کتابیں بے حد مقبول ہوئیں۔ شاد عظیم آبادی کی شاعری سے متعلق ایک کتابچہ بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا جس سے ان کی قوت نقد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی وفات ے بعد نادم بلخی نے ان کی صرف ایک تصنیف’’ ہندو شعرائے بہار‘‘، ۱۹۶۲‘میں چھوائی۔ اس یں احوال ضروری کے تحت موصوف کی چند غیر مطبوعہ تصنیفات مثلاً ’’ دستور سخن‘‘ صوبہ بہار کے تاریخی مقامات کے کتبوں کا مجموعہ’’ آثار بلخیہ‘‘ تحریک وہابیہ اور بہار وغیرہ کی خبر دی گئی ہے۔ ان کے علمی، ادبی اور تاریخی مقالات کی  ایک بڑی تعداد رسائل و جرائد میں بھی موجود ہے جسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ موصوف کی شخصیت اور تحقیقی رہنمائی سے متعلق ایک عمدہ مضمون جناب قیوم خضر نے آل انڈیا ریڈیو پٹنہ کے لئے لکھا تھا جو ان کی کتاب ’’ ارتعاش قلم‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۰ء میں شریک اشاعت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ بلخی صاحب ایک بلند پایہ مورخ و محقق ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعری بھی تھے۔ انہوں نے فصیح الدین بلخی کے تین اشعار بھی پیش کئے ہیںجو درج ذیل ہیں۔
 
اس کی کسے ہوس ہے کہ نام و نشاں رہے
 دنیا میں، میں رہوں نہ مری داستاں رہے
 کیوں آبرو ہو اپنی کسی کی نگاہ میں
 کیوں خوبیوں کا اپنی کوئی قدر داں رہے
٭٭٭
راحت ہمیں کہیں نہ کہیں مل ہی جائے گی
 دو گز کسی گلی میں زمیں مل ہی جائے گی
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*******************************
 
You are Visitor Number : 1708