donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Fazle Haq Azad
Poet
--: Biography of Fazle Haq Azad :--

 

 فضل حق آزاد 
 
 
فضل حق (تخلص آزاد) ابن الحاج داروغہ میر فدا حسین سادات کی مشہور و معروف بستی شاہو بیگہہ ( موجودہ ضلع جہان آباد) میں واقع اپنے آبائی مکان میں ۱۸۵۴ء میں پیدا ہوئے۔ صحیح تاریخ پیدائش کا علم نہیں۔ لیکن سن پیدائش پر ان کے سبھی مورخ متفق ہیں۔ ان کے والد شاہو بیگہیہ کے خوشحال زمینداروں میں تھے اور رئیسانہ زندگی گذارتے تھے۔ انہوں نے زمانے کی روش کے مطابق دس بارہ سال کی عمر تک بیٹے کو عربی و فارسی کی بنیادی تعلیم دلوائی ۔ اس کے بعد انہیں مذہبی تعلیم دلانے اور حافظ بنانے کے لئے لکھنو سے قاری محمد جان کو بلوایا۔ خاندان میں اور بھی رشتہ دار حافظ تھے جس کے سبب فضل حق کو حصول تعلیم میں آسانی ہوئی اور خود اپنے ہی بیان کے مطابق تیرہویں برس میں حافظ قرآن ہو گئے۔ ان کی خوش گلوئی اور دل پذیر قرأت کا اعتراف بھی ان کے سبھی تذکرہ نگاروں نے کیا ہے۔ ان کا انتقال اکتوبر ۱۹۴۲ء بمطابق ۲۷ شعبان ۱۳۶۱ھ کم و بیش ستاسی سال کی عمر میں ہوا۔ آبائی وطن شاہو بیگہ میں مسجد خانہ کے بیرونی صحن میں اپنے والد ماجد کے پہلو میں خواب ابد سے ہم کنار ہوئے۔مختلف شعرائے بہار نے ان کی وفات پر تاریخی قطعات کہے ۔ شاگرد شاد جناب حمید عظیم آبادی کے قطعہ تاریخ مطبوعہ
 
ندیم ، جنوری ۱۹۴۲ء درج ذیل ہے۔
 
 اٹھ گیا دنیا سے وہ استادِ فن فخر بہار
 جس کے دم سے تھی گلستاں میں بہار شاعری
 نام نامی فضل حق تھا کہتے تھے آزاد سب
 ذی کمالی کا مرقع اب وہی اک ذات تھی
 لطف کیا شعر و سخن کا جب نہیں جوہر شناس
 اے حمید نوحہ خواں ایسی بھی ہو زندگی 
مصرع تاریخ رحلت تم نے سچ لکھا حمید
 مسند جشن سخن افسوس سونی ہو گئی
۱۳۶۱ھ 
 آزاد کی ابتدائی شخصیت کے بارے میں غالب کا یہ مصرع دہرانا غالباً درست ہوگا کہ ع 
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
مگر زندگی کے آخری ایام میں وہ غایت مذہبی ہو گئے تھے۔ 
 
روایتوں کے مطابق فضل حق آزاد نے دو شادیاں کیں ۔ پہلی شادی کم سنی میں ان کے سفر حجاز سے واپس آنے کے بعد شیخ نثار حسین رئیس لودی کٹرہ پٹنہ سیٹی کی صاحب زادی سے ہوئی۔ سامان جہیز کے علاوہ تیس ہزار روپے سالانہ کی جائداد بھی ملی۔ اہلیہ بھی بے حد نیک سیرت اور خدمت گذار ثابت ہوئیں۔ شادی کے بعد انہوں نے پہلے تو اپنے والد کا چھوڑا ہوا قرض ادا کیا اور بچی کھچی جائداد بہنوں اور بھائیوں میں تقسیم کردی۔ پھر پٹنہ میں رہائش اختیار کر لی۔ ایک خوبصورت کوٹھی پیر بہوڑ ( نزد پٹنہ یونیورسٹی و سائنس کالج پٹنہ) تعمیر کرائی اور اس میں رہنے لگے۔ جب یہ کوٹھی حکومت عمارت نے بنانے کے لئے زبردستی خرید لی تو ۱۹۱۲ء کے آس پاس اپنے آبائی گائوں کا رخ کیا۔ گرچہ پٹنہ آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔
 
ان کی شخصیت، سیرت اور پٹنہ میںقیام کے دوران رئیسانہ مصروفیتوں کا تذکرہ سید بدر الدین احمد نے اپنی کتاب ’’ حقیقت بھی کہانی بھی ‘‘ میں قدرے تفصیل سے کیا ہے۔ ان کے احوال و آثار سے متعلق ایک بھر پور کتاب ڈاکٹر محمد ذکی الحق اور محمد ابراہیم آہ نے ۱۹۶۱ء میں مرتب کرکے بزم اردو بی ۔ این کالج کی جانب سے شائع کی تھی۔ اس میں معین الدین دردائی، عبد المنان بیدل، شمس منیری، جمیل مظہری، اختر اورینوی ، مختار الدین آزاد ، زمین الاحق چاند اور کلیم عاجز جیسے مشاہیر اردو کے مضامین شریک اشاعت تھے۔ ڈاکٹر روحی حسن مجید احمد اللہ ندوی اور عزیز الدین بلخی کی کتابوں میں بھی ان کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں قابل ذکر موادموجود ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نظریاتی طور پر سرسید سے متاثر تھے۔
 
 فضل حق آزاد کا کوئی بھی تذکرہ ان کی ادبی معرکہ آرائیوں کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ تین اہم ادبی شخصیتوں کو انہوں نے نشانہ بنایا۔ شوق نیموی، شاد عظیم آبادی اور علامہ اقبال خاص طور پر شاد سے ان کی معرکہ آرائی کم و بیش چالیس برس تک چلتی رہی۔ دراصل الپنچ اور شاد کی معرکہ آرائی کے محرک اور روح رواں آزادہی تھے۔ شوق کے ساتھ ان کی چشمکیں کم دنوں تک چلیں اور اقبال کے ساتھ یہ صورت رہی کہ آزاد نے ان ی نظموں کے جواب میں نظمیں لکھیں مگر اقبال نے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا۔ دراصل یہ تمام ادبی معرکے آزاد کی خود پسند اور شعلہ مزاج شخصیت کا نتیجہ تھے۔ ان میں ادبی و فنی مسائل زیر بحث ضرور آئے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ہماری ادبی تاریخ کا روشن باب ہیں یا تاریک پہلو۔
 
غورکیا جائے تو فضل حق آزاد ایک ذہین اور جینیس فنکار کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان کی ادبی جہات خاصی متنوع رہی ہیں۔ انہوں نے شاعری کی تمام صنفوں پر کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی اور مقبول ہوئے۔ اپنے عہد کے تمام موقر ادبی رسائل و جرائد میں ان کا کلام شائع ہوا۔ اردو کے علاوہ فارسی میں ان کی نعتیں اور غزلیں ویسے تو بہت قبل ہی شائع ہونے لگی تھیں مگر فارسی زبان سے ان کی ماہرانہ واقفیت کا اہم نمونہ الپنچ پٹنہ میں شائع شدہ وہ مسدس ہے جس کا عنوان ہے
 
 راست می گویم و یزداں نہ پسند و جز راست
 حرف نارا است سردودن روش ابر من است
 
 انہوں نے چالیس چالیس اشعار کہے ہیں۔ بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی بعض نظمیں نصاب میں داخل رہی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ اب تک ان کی شاعری سے متعلق کوئی بھرپور کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے نہ ہی ان کا کوئی مجموعہ کلام شائع ہوا ہے۔ محمد ذکی الحق کی مرتبہ کتاب میں ان کا کچھ کلام تھا مگر وہ کتاب بھی کمیاب ہے۔ ایسے میں بہار اردو اکادمی سے شائع شدہ متین عمادی کی مختصر سی کتاب غنیمت ہے جس میں ان کے احوال بھی ہیں اور انتخاب کلام بھی۔ ان کی ایک نظم’’ حقیقت حسن ‘‘ کے اشعار بطور نمونہ پیش خدمت
 
ہیں جن میںاقبال کے متوازی چلنے کی کوشش ہے۔
خدا نے حسن کو پیدا کیا جو روز ازل
 تو بعد حمد و ثنا حسن نے سوال کیا
 نظر فریب بنا کر ریاض عالم میں
جو میری ہستی ناچیز کو نہال کیا
 تو کس قصور میں یارب کیا زوال پذیر
 دیا یہ اوج تو پھر کیوں نہ لا زوال کیا
 ملا جواب کہ ہے لا زوال ذات قدیم
 یہ اس کی شان ہے تو نے یہ کیا خیال کیا
٭٭٭
دو اور مشہور اشعار ملاحظہ ہوں
 یہ بستی اب بھی بازار ختن ہے با کمالوں سے
 غزال آنکھیں چراتے ہیں عظیم آباد والوں سے
 اللہ بچائے تمہیں دشمن کی دعاء سے
 کمبخت کہیں مانگ نہ لے تم کو خدا سے
٭٭٭
 مرثیے کا ایک بند بھی دیکھئے۔
پوپھٹتے ہی صبح کے چہرے کا رنگ فق
 پھولی ہوئی تھی عارض پر نور پر شفق
 دریا رواں تھے سینۂ صحرا تھا صاف شق
تھا منقلب صحیفہ ہستی کا ہر ورق
الٹا ہوا تھا شیشۂ آبی حیات کا
 بامِ فلک سے طشت گرا آفتاب کا
آزاد سے متعلق تقریباً نصف صدی پیش کی گئی اختر اورینوی کی رائے آج بھی ہمارے لئے دعوت فکر و عمل ہے۔
 
 ’’ آزاد کی شاعری پر مختلف جہتوں سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک اعلیٰ غزل نگار، قادر الکلام قصیدہ نویس ، فصیح مرثیہ گو، ماہر قطعہ تراش اور رباعی ساز تھے۔ بیانیہ مثنویاں بھی انہوں نے خوب خوب لکھی ہیں اور اوسط درجے کی موضوعاتی نظموں کی تخلیق بھی بڑی صناعی سے کی ہے۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
******************************
 
 
You are Visitor Number : 1885