donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Firaq Gorakhpuri
Poet
--: Biography of Firaq Gorakhpuri :--

 

Raghupati Sahai Firaq was born at Gorakhpur in Uttar Pradesh. His father, Munshi Gorakh Prasad, was an advocate by profession, but a poet by taste and temperament. He wrote poetry under the pen-name of "Ibrat". Firaq thus grew up in an enlightened, literary environment which must have activated his innate artistic instincts. He was a distinguished student specially interested in Urdu, Persian, and English literature, in which subject he also obtained a Master's degree. He had a chequered career which induded a short period of government service as Deputy Collector, several years of political and patrioticwork in the Indian National Congress, which entailed for him one year of imprisonment, and, finally, a long career as a teacher of English at Allahabad University. Firaq married at the comparatively young age of 18, but it was an unhappy marriage, a constant cause of tension between husband and wife.

As a poet of the ghazal Firaq stands foremost among the modern writers. His poetry and personality were nurtured by several diverse influences. He was thoroughly familiar with the Urdu poetic tradition, and was specially impressed by the poetry of Mir and Momin. He was also influenced by English poetry, in particular by the poetry and poetics of the romantics. Further, he had imbibed within him the spirit of the ancient Hindu thought and culture, as reflected in Hindi and Sanskrit literatures. Consequently, Firaq's poetry has acquired a unique flavour. It is remarkable for its sensuousness, for its frank commitment to physical beauty, for its sensitivity to human sorrow, and for its exploration of the mysteries of the night- the starry skies, their shifting moods and hues, their silences, and their glimmer and gloom.

Firaq is sometimes accused of coarse sensuality in his treatment of love and women. True, he has departed from the convention of reticence and reserve generally observed by the Urdu poets in this context, but it goes to his credit that he does not normally allow his sensuousness to sink into prurience or vulgarity. He looks at the female form with the eye of an artist and a lover, and often interprets the beauty of woman in terms of the beauty of nature. Like the English romantic poets, Firaq seems to have found a bond of unity between man and nature, body and spirit, all of which were for him the manifestations of the same divine energy:

All things o the universe are lrnks of one chain,
The shaking of a flower will set a star ashiver.

Firaq has thed to bring Urdu poetic diction dose to the Indian soil by blending it with Hindi words and indigenous imagery. His ghazals breathe a native Indian flavour, and are suffused with a soft, subdued music. They are written in a variety of measures, both short and long. He has also written rubales and criticism in prose. In recognition of his services to the cause of language and literature Firaq was honoured with two prestigious awards-the Sahitya Akademy Award (1960) and the Jannpith Literary Award (1969).

 

 فراق گورکھپوری 

خود نوشت
 
۱۸۹۶ء میں شہر گورکھپور میں پیدا ہوا ، یہ سری واستو کایستھوں کا خاندان پورے چار سو برسوں سے ضلع گورکھپور آباد ہے۔ میرے بزرگوں کو پانچ گائوں شیر شاہ کے دئیے ہوئے اسی ضلع میں آباد ہیں اور ہم لوگ پنچگاواں کے کایستھ کہلاتے ہیں۔ میرے والد منشی گورکھ پرساد عبرت چوٹی کے وکیلوں میں تھے۔ اور ان کا نام حالی او ر آزاد کے ساتھ ساتھ جدید اردو شاعری کی تاریخ میں لیا جاتا تھا۔ میری تعلیم گھر پر ہوئی۔ والدمرحوم کی تعلیم تو عربی اور فارسی کے باقاعدہ اکتساب سے شروع ہوئی تھی اور جب ان زبانوں میں دسترس ہو گئی تب وہ انگریزی اور وکالت کی طرف مائل ہوئے۔مگراب زمانہ بدل چکا تھا اردو کی دو تین کتابیں ختم کرنے کے بعد ہی انگریزی کی باقاعدہ تعلیم شروع ہو گئی۔ ایف اے کا امتحان فارسی کے ساتھ دیا لیکن بی اے میں فارسی چھوڑ دی۔ غرض کہ جہاں تک اسکول اور کالج کے باقاعدہ یا بے قاعدہ تعلیم کا تعلق ہے انگریزی زبان اور مغربی علوم ہی کو اہمیت رہی۔ مگر دل و دماغ کی تہیں اور گہرائیاں انگریزی زبان اور مغربی علوم سے کب آسودہ ہو سکتی تھیں۔ جب تک کوئی حقیقت ، شعر و نغمہ یا حسن کی شکل میں شعور میں نہ اتر جائے مجھے تشفی نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے انگریزی تعلیم تو زندگی کے اسٹیج کا ایک پردہ تھا باوجود اپنے تمام آب و تاب کے پس پردہ جو محرکات کارگر تھے انہیں کوئی اور الفاظ ہاتھ نہ آنے کی وجہ سے حُسن و عشق ہی کہہ لیجئے۔ بچپن ہی سے خوش قسمتی یا بد قسمتی سے طبیعت بہت حساس تھی۔ اپنے ہم عمروں اور ہم جماعتوں میں سات ہی آٹھ سال کی عمر سے جس سے یگانگت  یا دوستی ہو گئی اسے اٹھا کر کلیجے میں رکھ لینے کا جی چاہتا تھا۔ گانے اور نغمے اس عمر سے اس طرح متاثر کرتے تھے کہ ان گنگ کیفیتوں کی یاد سے اب بھی گھبرا جاتا ہوں ایک بچے کے نرم قویٰ شدید تاثرات کے آسانی سے حامل نہیں ہو سکتے۔ سور داس کے نغمے اور دیگر ہندی نغمے تلسی داس کی رامائن کا نرم قویٰ شدید تاثرات کے آسانی سے حامل نہیں ہو سکتے۔ سور داس کے نغمے اور دیگر ہندی نغمے تلسی داس کی نارائن کا  ترنم خاص طور سے متاثر کرتے رہے جو اردو اشعار یا نظمیں درسی کتابوں یا دوسری کتابوں میں یا لوگو ں کی زبانی سننے کے موقع ملتے تھے وہ بہت کچھ تو خشک اور کرخت اور بے رس چیزیں معلوم ہوتی تھیں۔ لیکن ان میں  اشعار مترنم ہوتے تھے وہ دل میں ڈوب جاتے تھے اور چوں کہ ہماری روز مرہ کی بولی میں ہوتے تھے اس لئے ایسے اشعار کا اثر بہت ہوتا تھا۔کچھ نظمیں اور غزلیں والد مرحوم کی بچپن ہی سے وردزبان رہتی تھیں اور کچھ دوسروں کی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کہانیاں اور وہ واقعے وہ مناظر بہت متاثر کرتے تھے۔جن میں میری بچپن کی ذہنیت کوئی بات پاتی تھی۔ انسانی حسن کا اثر تو یہ ہوتا تھا کہ بیک وقت موت اور زندگی کا گویا سامنا ہو جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ غصہ اور نفرت بھی کچھ لوگوں سے اور کچھ باتوں سے میرے لئے نا قابل برداشت اور بے مغز چیزیں تھیں جتنی شدید محبت تھی اتنی ہی شدید نفرت بھی ۔ یا جتنا تیز حسن کا احساس تھا اتنا ہی تیز قبح کا احساس تھا۔ مگر بہ حیثیت مجموعی حیات اور کائنات کے لئے ہم آہنگی محبت و احترام کے جذبے اور تخیر کی کیفیت میری زندگی اور میری وجدان کے خاص عناصر تھے۔ ان کے تصور سے گویا میری آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔اور اس مرکزی مستقل جذبے کی تشفی مغربی علوم سے نثر کی کتابوں سے اور تمام دیگر ذرائع سے ہوتی رہی۔ گھبراہٹ اور بے صبری اور تنہائی کا احساس بھی شروع ہی سے اتنا تیز تھا کہ اب تک فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کو کیا کیوں۔ قریب قریب پینتیس برس کے مجموعی تاثرات شاید میرے ان دو چار اشعار میں کچھ ظاہر ہو گئے ہوں۔
 
اسی دل کی قسمت میں تنہائیاں تھیں
 کبھی جس نے اپنا پرایا نہ جانا
ہزار غم ہو نہیں چاہتا کوئی لیکن
 کہ اس کے بدلے کوئی اور زندگی ہوتی
اے ساکنانِ دہر یہ کیا اضطراب ہے
 اتنا کہاں خراب جہانِ خراب ہے
 ترک محبت کرنے والو کون براجگ جیت لیا
 عشق سے پہلے کے دن سوچو کون ایسا سکھ ہوتا تھا
 
 بہر حال یہ سب باتیں پس پردہ ہوتی رہیں او ررسمی تعلیم جاری رہی اور دبے پائوں زندگی نما موت یعنی جوانی بھی آگئی ۔ شادی بھی ہو گئی اور ازدواجی زندگی اتنی نا خوشگوارثابت ہوئی کہ میں یہ کہہ نہیں سکتا کہ اس نے مجھے بگاڑ دیا یا بنا دیا۔ شاید دونوں حالتوں میں زیادہ فرق نہیں۔ اس کے بعد بی اے  ہوئے ۔ نوکر ہوئے ( لیکن ابھی) پنشن ( نہیں) ملی اور ( نہ ابھی) مر گئے۔ بی اے کے امتحان کے بعد ہی والد مرحوم کا سایہ سرسے اٹھ گیا اور غم روز گار بار سر پر پڑ گیا ۔ ڈپٹی کلکٹری کی ملازمت اور یونیورسٹی کی پروفیسری بی اے کے بعد ہی مل گئی تھی اور آئی سی ایس کے لئے گورنر نے نامزد کر دیا تھا لیکن ازدواجی زندگی کی تلخی نے اتنا بیدل کر دیا تھا کہ جب وطن یا جھوٹی سچی خدمت وطن میں پناہ لینا چاہی۔ تمام ملازمتوں سے انکار کرکے کانگریس میں شامل ہو گیا اور قیدِ فرنگ کی سیر بھی کی۔ یہ ۱۹۲۷ء تک کا ذکر ہے اس کے بعد لکھنو کرسچین کالج میں، پھر کانپور، سناتن دھرم کالج اور اب الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کا لکچرار ہوں۔ بد نصیبوں میں تقدیر کی یہ بھی ستم ظریفی ذرا قابل ذکر ہے کہ ہر امتحاں میں چوٹی کی کامیابی حاصل ہوتی رہی۔ لیکن خوش ہونے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ مجھ سے زیادہ خو ش وہ تھے جو صرف تھرڈ ڈویزن میں کامیاب ہوتے رہے۔ میرے لئے آج تک کامیابی اور خوشی ایک چیز نہ ہو سکیں۔
 
اچھا اب لگے ہاتھوں اپنی شاعری کے بارے میں کچھ گذارش کردوں جی تو بچپن ہی سے شعر کہنے کو چاہتا تھا لیکن بچپن کی صلاحیتیں یہ بار برداشت نہ کر سکتی تھیں ۔ میرے والد امیر مینائی کی شاعری سے متاثر نہ تھے لیکن میرے پھوپھی زاد بھائی منشی راج کشور لال سحرؔ جو مجھ سے محبت کرتے تھے امیر مینائیؔکی شاعری کے بہت دلدادہ تھے۔ اب میں جو غور کرتا ہوں تو بچپن سے امیر مینائی کی شاعری سے لگائو کا یہ سبب پاتا ہوں کہ میرؔ کے کلام میں ان کی لے میں ٹھہرائوں اور بہائو کا ایک ایسا امتزاج ہے۔ جو غیر شعوری طور پر مجھے اس سے ہم آہنگ کر دیتا تھا۔ شاید یہ اثر ان کے کلام میں غیر شعویر طور پر مصحفی کے کلام کے مطالعہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ بہر حال خود تو شعر کہنے کے لئے جھک مارا کرتا تھا اور ایک مصرع بھی مجھ سے نہ ہوتا تھا۔ لیکن بی اے کلاس تک امیر ؔ مینائی ہی کی شاعری اور لب و لہجہ یا یوں کہئے کہ ان کے اشعار میں جو آواز تحت الشعر تھی اسی سے متاثر ہوتا رہا۔ پھر عزیز لکھنوی ، شاد عظیم آبادی اور ناصری مرحوم کی صحبت کے اثر سے میرؔ، درد، غالب ؔ کی آواز یں میرے دل میں اتر گئیں۔ حسرتؔ، اصغرؔ یگانہؔ ، اقبالؔ کے کلام سے بھی فیضیاب ہوتا رہا ہوں ۔ اور فارسی شعرا سے بھی ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادب کو بھی اپنے اندر یوں تحیل کرتا رہا کہ اس کی آواز اپنی آواز میں ڈھلتی جائے۔ جب کہیں جا کر بی اے میں پہلی غزل کہی۔ یہ ۱۹۱۶ء کی بات ہے۔دو چار غزلیں ناصری مرحوم نے دیکھیں بعد کو دو چار غزلیں حضرت وسیم خیر آبادی کو دکھائیں پھر کسی سے اصلاح کی نوبت نہ آئی بلکہ شاعروں کے بدلے مجنوں گورکھپوری، پریم چند ، آنجہانی حضرت نیاز فتح پوری نثر نگار حضرات کی صحبتوں کا زیادہ اثر میری ادبی زندگی پر رہا۔ ہاں جوانی اور تنہائی اور گناہِ عشق کا بھی ساتھ رہا اور اس کے جو نتائج ہو سکتے تھے وہ بھی ہوتے رہے۔ سچ پوچھئے تو شعر کہنے کا شروع میں تو ممکن ہے شوق ہی رہا ہو۔ لیکن جب سے جواں ہو کر زندگی کی تلخیوں کو یعنی لہو کے گھونٹ کو شیر و شکر کرکے اتار نا پڑا قلب سے شاعری گویا زندگی کی تلاش کا ایک ذریعہ بن گئی۔ شاید زندگی کو شعر میں تحلیل کرنا اور شعر کو زندگی کا آئینہ بنانا مقصد زندگی  ہو ۔ کون جانے۔
 
میرے چند احباب شروع ہی سے میری شاعری کی ایک خصوصیت اتحاد اور اجتماع ضدین اور (Paradoxy ) بتاتے ہیں میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نفرت و محبت، حسن و قبح کا شدید ترین احساس کرتے ہوئے حیات اور کائنات پر میرا ایمان قائم رہا۔ کفر اور ایمان دونوں لحاظ سے وحدت وجود کا قائل رہا۔ پھر تلخی ناکامی حسرتوں کا خون ہونا اور جدلیت پذیر وحدت کا احساس اتحاد ضدین کی صفت میرے وجدان اور میری شاعری میں کیوں نہ پیدا کر دیتی ۔ مجھے تو زخم ہی کا مرہم بنانا تھا۔ پھر کیا کرتا اگر درد بھری آواز میں سکون نہیں تو وہ نغمہ کہاں ، چیخ، ہو گئی۔ میں شاعری میں لہجہ کو سب سے ضروری سمجھتا ہوں۔ اسی لہجہ میں شاعر کی شخصیت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ شاعری تمام عالم کے دُکھ درد کے احساس کو بغیر کم کئے ہوئے اگراس میں نرمی اور جزو برکت سمو سکے تو اس میں قوت شفا (Healing Power ) آجاتی ہے اور شاید یہی چیز شاعری کو عظمت دے سکتی ہے۔
 
رگھو پتی سہائے فراق
 
*****************

 

 
You are Visitor Number : 2162