donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Firdausi Azimabadi
Poet
--: Biography of Firdausi Azimabadi :--

 

 فردوسی عظیم آبادی 
 
 
 سید تراب حسین (تخلص  فردوسی) و لدسید کاظم حسین زار عظیم آبادی  تعلیمی سند کے اعتبار سے ۳۱؍ جنوری ۱۹۴۱ء کو پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔ دانش عظیم آبادی نے جوسن پیدائش ۱۹۳۷ء لکھا ہے ( بحوالہ سید عاشورہ کاظمی: اردو مرثے کا سفر) وہ ممکن ہے اصل سال پیدائش ہو مگر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ محمڈن اینگلو اسکول کے قدیم ترین رجسٹر میں بھی ان کا سال پیدائش ۱۹۴۱ء ہی درج ہے۔ ابتدائی تعلیم والد کے زیر نگرانی حاصل کی۔ محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا اور بالآخر آٹو موبائل انجینئر ہوئے۔ ابتداء میں جمشید پور کی ٹسکو کمپنی میں ملازمت کرتے رہے۔ مگر فسادات کے بعد دل شکست ہو کر پٹنہ چلے آئے اور یہاں حکومت بہار کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد صحت رفتہ رفتہ خراب ہوتی گئی۔ اس کے باوجود خاصے فعال رہے۔ گذشتہ برسوں کی طرح ۲۰۰۵ء میں بھی تین شعبان کی محفل مقاصدہ میں شرکت کے لئے دہلی گئے اور واپسی میں زیارت کے لئے جوگی پورہ کا سفر کیا۔ مگر وہاں سے وطن لوٹنے کے بجائے۲۱ ستمبر کو سفر آخرت پہ روانہ ہو گئے۔ جسد خاکی پٹنہ لایا گیا اور مقبرہ نوڈھال پٹنہ سیٹی میں والد کے جوار میں جگہ ملی۔
 
فردوسی کی شعر گوئی کا باضابطہ آغاز ۱۹۵۷ء میں ’’ انجمن بہار ادب‘‘ کے کل ہند مشاعرہ منعقد تاریخی بائولی ہال میں منعقد ہوا۔ ابتداء میں وہ عام طور سے خوشگوار ترنم کے ساتھ مشاعروں میں غزلیں سناتے رہے مگر بعد میں دیگر اصناف شاعری خصوصاً مرثیہ نوحہ اور سلام کی طرف متوجہ ہو گئے۔ لہجے میں بے حد سوز گداز تھا جس کی تاثیر بے مثال تھی۔ جب ان کے لکھے ہوئے نوحے ہندو پاک کے مختلف شہروں میں محرم کے دوران کثرت سے پڑھے جانے لگے اور ہر سال ان سے تازہ کلام کی فرماء ہونے لگی تو انہوں نے غزل گوئی تقریباً ترک کرکے عقیدت مندانہ کلام سے رشتہ جوڑ لیا۔ رباعی کی بحر میں کہا گیا ایک مرثیہ ان کی جدت فکر اور قادر الکلامی کا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے اپنی کتاب’’ بیسویں صدی او رجدید مرثیہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ مرثیہ ان کے ذاتی ذخیرہ مراثی میں موجود ہے۔ بہر حال اس کا ایک بند نقل کرتا ہوں۔
 
اے ذہن رسا زور جوانی دکھلا
 اے نوک قلم سیف ربانی دکھلا
 اے طبع رواں سیل معانی دکھلا
 اے ذوق سخن نغز بیانی دکھلا
 اے فکر بلند، فرش احساس پہ آ
 اے جذبہ دل نکل کے قرطاس پہ آ
 
 پٹنہ میں عزا داری کی روایت کو فروغ دینے والوں میں فردوسی کا نام سر فہرست ہے جب انہوں نے ’’ انجمن حیدری‘‘ قائم کی تو ایک عرصے تک حیدری تخلص کے ساتھ بھی نوحے لکھتے رہے۔ پٹنہ میں’’ شام غریباں‘‘ کی مجلس کا آغاز انہوں نے ہی کیا اور اس میں تقریباً ہر سال مجلس سے قبل اپنا سلام پر سوز انداز میں پیش کرتے رہے۔ اس موقع پر پیش کیا جانے والا ایک سلام جذبے کے صداقت اور شدت اور اسلوب کی روانی کے سبب کافی مقبول بھی ہوا۔ اس کے چند اشعار اس طرح ہیں۔
 
شہید کرب و بلا خستہ تن سلامی لو
 مرے امام مرے بے وطن سلامی لو
 ہزار روئے ان آنکھوںسے اشک کم نہ ہوئے
 میانِ عرصہ عاشورہ آہ ہم نہ ہوئے
 ہزار حیف یہ قسمت ملی نہ تھی ہم کو
 جہاں میں آج ہیں زندہ تمہارے ماتم کو
 بہائیں اشک عزا دل خراش بین کریں
 یہی تھی مرضی خالق کہ یا حسین کریں
 وہاں نہ تھے تو یہاں کر بلا بناتے ہیں
 ہم اپنا خون اسی عزم سے بہاتے ہیں
 یہاں بھی خاک سروں پہ اڑا رہے ہیں ہم
 یہاں بھی شام غریباں منا رہے ہیں ہم
 
 فردوسی کی غزلیں کلاسیکی طرز اظہار اور نیم رومانی احساسات کا نمونہ ہیں۔ مگر ان میں بے حد روانی ہے۔ وہ اپنی غزلوں کی اشاعت سے عام طور پہ بے نیاز رہے ہیں ۔ اس لئے زیادہ نمونہ کلام دستیاب نہیں ہے۔ سلطان آزاد کے حوالے سے ایک غزل کے یہ اشعار نقل کرتاہوں۔
 
 پھر یاد کوئی آیا پھر درد سوا ہوگا
 اب اے غم تنہائی اس رات کا کیا ہوگا
کچھ اور بڑھی ہوگی سرخی ترے چہرے کی
 تنہائی میں جب تونے کچھ یاد کیا ہوگا
 ماتھے پہ شکن کیسی شرمائے ہوئے کیو ں ہو
 لوگوں نے مجھے شاید دیوانہ کہا ہوگا
 میخانہ چھٹا مجھ سے پی آ تو ہی اب واعظ
 اب بھی مرے حصہ کا پیمانہ بھرا ہوگا
 تم نے تو مری حالت مڑکر نہیں دیکھی
 کیا جانو خدا حافظ کس دل سے کہا ہوگا
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
********************
 
You are Visitor Number : 2154