donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ghulam Sarwar
Journalist
--: Biography of Ghulam Sarwar :--

 

 غلام سرور 

Name: Ghulam Sarwar
Father's Name:- Abdul Hameed
Date of Birth:- 10, January,1926
Place of Birth::- Begusarai
Date of Death:- 18, October, 2004
Place of Lying: Danapur, Patna
 
ولدیت : عبد الحمید
تاریخ پیدائش : ۱۰ جنوری۱۹۲۶
جائے پیدائش : بیگو سرائے
وفات : ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۴
مدفن : دانا پور،(پٹنہ)
غلام سرور کا شمار بہار کے صف اول کے اردو صحافیوں میں ہوتا ہے مسلمانوں کے سیاسی،سماجی ، تعلیمی اور اقتصادی مسائل پر ان کی بڑی گہری نگاہ تھی اور وہ ہمیشہ ان کے تدارک کے لئے سرگرداں رہے۔ آزادی ہند سے قبل اور بعد میں مسلمانان ہند عمومی طور پر اور خصوصی طور پر مسلمانان بہار کے ساتھ حکومت وقت کے ظلم و زیادتی اور ان کے استحصال کے خلاف انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کو شمشیر برہنہ کی طرح استعمال کیا۔
 
تزکرہ نگاروں نے نہ جانے کس مصلحت کی بناء پر غلام سرور کے ابتدائی دنوں میں ان کے مسلم لیگی کردار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ روز روشن کی طرح یہ  امر واضح ہے کہ غلام سروردور جوانی میں مسلم لیگ سے وابستہ تھے، آزادی سے قبل عام طور پر مسلمان مسلم لیگ کے ہمنوا تھے۔ شائد اس کی وجہ کانگریس میں موجودانتہا پسندوں اور متعصب لوگوں کاکردار و عمل تھا، گرچہ آزادی ہند کے بعد مسلم لیگ پاکستان چلی گئی اور کانگریس ہندوستان میں رہ گئی بہر حال، اس وقت ، وقت اور حالات کا تقاضہ تھا، جوش و جنون سے لبریز مسلم نو جوان مسلم لیگ کے حمایتی تھے۔ غلام سرور بھی ۱۹۴۵ کے آس پاس نو جوان تھے، نیا نیا جوش و جذبہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ۱۹۴۵سے پٹنہ سے شائع ہونے والے مسلم لیگ کے ترجمان ’’نو جوان‘‘ کی ادارت میں وہ شامل تھے۔ آزادی کے بعد حالات بدلے تو لوگوں نے اپنے افکار و خیالات بھی بدلے۔ لیکن غلام سرور نہیں بدلے، حکومت (کانگریس) کی مخالفت ان کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ دور بہار کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر مذہبی، سیاسی، سماجی تعلیمی، اقتصادی اور لسانی طور پر پر آشوب اور نہایت صبر آزما دور تھا۔ غلام سرور ایک ذہین اور حساس نوجوان تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد ابتدائی دور میں اختر اور نیوی جیسے استاد کی تقلید میں اردو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ چند ایسے مضامین لکھے، جس نے بہت جلد لوگوں کی توجہ مرکوز کرالی۔ ’’پرکھ‘‘ جیسی کتاب اس امر کا ثبوت ہے لیکن غلام سرور بہت جلد اس میدان سے الگ ہو گئے اور ۱۹۵۱ میں سہیل عظیم آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے روز نامہ ’’ساتھی‘‘ کو خرید لیا، جس کے کئی اہم شمارے آج بھی یاد گار ہیں۔ لیکن یہ اخبار وہ زیادہ دنوں تک نہیں چلا سکے۔ ۱۹۵۳ سے انہوں نے اپنا اخبار ’’سنگم‘‘ہفتہ وار کی شکل میں نکا لنے لگے۔ اتوار کو اس زمانے کے مقبول روز نامے ’’صدائے عام‘ ‘ اور ’’ ساتھی‘‘ بند رہتے تھے اور اسی روز ’’سنگم‘‘ شائع ہوتا تھا۔ اس اخبار کا تیور مختلف تھا۔ انداز تحریر بھی جوش و ولولہ اور جرأتمندی سے بھر پور تھی۔ لوگوں نے اس اخبار کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کی مقبولیت بڑھنے لگی اور عوام الناس کی یہ خواہش تھی کہ اسے روز نامہ کر دیا جائے، چنانچہ ۱۹۶۲’’سنگم‘‘ روز نامہ ہو گیا۔
 
’’سنگم‘‘ میں غلام سرور نے مسلمانوں کے حالات زار کی بھر پور نمائند گی کی۔ شعلہ بار اداریوں سے اس کے قاری نے محسوس کیا کہ یہ اخبار پوری طرح ہمارے احساسات و جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے۔
 
غلام سرور نہ صرف اپنی تحریروں میں آگ اگلتے تھے، بلکہ ان کی تقریروں میں بھی شعلہ بیانی تھی۔ یقینا وہ ایک اچھے مقرر تھے اور لوگوں کی دکھتی رگ کو بخوبی پہچانتے تھے۔ غلام سرور کی تحریر وتقریر نے انہیں قانون ساز اسمبلی تک پہچا دیا اور مسلسل کانگریس کی مخالفت کی وجہ کر، جب بہار میں غیر کانگریسی حکومت بنی، تب وہ وزیر تعلیم بنے۔ بعد میں لالو پرساد کی حکومت میں وہ اسپیکر کے عہدہ پر بھی فائز ہوئے۔
اس دو ران غلام سرور ایک متنازع شخصیت بھی بن کر ابھرے۔ ان پر کئی طرح کے الزامات عائد کئے گئے۔ اس دور کے کئی اخبارات مثلاً ہفتہ وار ’’پندار‘‘ (پٹنہ) ایک قوم (پٹنہ) عظیم آباد اکسپرس (پٹنہ) اور ’’مورچہ‘ (گیا) وغیرہ مسلسل ان کے خلاف صف آرا ٔہے۔ طرح طرح کی سرخیاں ان کے خلاف لگائی گئیں۔ غلام سرور کے دیر ینہ دوست پروفیسر عبدا لمغنی بھی اردو زبان کا سودا کرنے پر ان سے خفا ہو گئے۔ ان کے ایک اور دوست کلام حیدری نے ’’سنگم کے سات ادارئے‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا، وہ سب بہر حال غلام سرور کے حق میں نہیں جاتے ہیں۔
 
ان تمام باتوں کے باو جود غلام سرور کی صحافتی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ غلام سرور نے بہار کی اردو صحافت کے اعلیٰ معیار و مقام کی مثال قائم کی ہے۔ جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
Ghulam Sarwar (1926-2004), a Bihar politician, became known as a fiery orator in chaste Urdu in late 1940s. His pen showed its might through the newspapers, ‘Naujawan’, ‘Saathi’, and more well-known ‘Sangam’, which endures till date. This ‘Baaghi Daanishwar’, i.e., rebellious intellectual, became an eye-sore to the Indian state in the 1960s. He was imprisoned in 1964. His Jail Diary, ‘Goshay Mein Qafas Ke’ became such a best-selling account that its royalty fetched him enough money to perform Haj; on coming back he was once again put behind bars in 1965, which produced another ‘Jail Diary’, ‘Jahan Ham Hain’. In 1970s, he jumped into the JP Movement; simultaneously he was one of the strongest pillars of the Urdu Movement in Bihar. He bcame Bihar’s education minister (1977-79), Speaker, Bihar Legislative Assembly (1990-95), and agriculture minister (1995-2004).
 
You are Visitor Number : 4414