وہ دل فریبیٔ ارض حجاز کیا کہئے
ہے ذرہ ذرہ وہاں جاں نواز کیا کہئے
وہ ریگ و سنگ پئے اہل ذوق مقناطیس
وہ دلکشی نشیب و فراز کیا کہئے
جہاں مجاز اک آئینہ حقیقت ہے
وہاں حقیقت رنگِ مجاز کیا کہئے
وہ خواب گاہ نبوت وہ گنبدِ خضرا
وہ اس کا جلوۂ نزت طراز کیا کہئے
وہ مسجد نبوی وہ حریم خاص رسول
نماز اور وہاں کی نماز کیا کہئے
نکل کر کھڑا ہوا گھر سے جو شمس بے سر و پا
کشش یہ کس کی تھی ندہ نواز کیاکہئے
علامہ جمیل مظہری نے ان کی غزل گوئی کے حوالے سے بجا طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ ایک ایسے عہد کے شاعر تھے جس میں جدید اور قدیم رنگ تغزل کے راستے الگ ہو رہے تھے۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ان کا جھکائو کلاسیکی رنگ ِ سخن کی طرف رہا۔ ایسے میں ڈاکٹر طلحہ رضوی برق کی یہ رائے خاصی متوازن کہی جا سکتی ہے۔
’’ شمس منیری نے اردو کی کلاسیکی شاعری کا تتبع کیا ہے اور اس میں بے حد کامیاب رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت شمس منیری روایتی غزل گوئی میں اپنی ایک الگ شان رکھتے ہیں۔ ان کی صاف و سادہ آسان اور شیریں زبان جا بجا سہل ممتنع کا حسن رکھتی ہے۔ شمس منیری کو ہم ایسی روایتی اور کلا سیکی غزلوں کا ایک اہم ستون اور اقتدار کی شکست و ریخت کے اس عبوری دور کا سنگ میل قرار دیں گے۔ ان کی نظمیں ان کی رباعیات، ان کے مذہبی عقیدے والے اشعار ان کے پاک و صاف اندروں کے عکاس ہیں۔ زبان وبیان پر ان کی مثالی گرفت اور قدرت اظہار قابل تقلید نمونہ ہے۔‘‘
شمس کی غزلوں کے چند اشعار یہ ہیں
کر نہ دے بے خودی شوق کہیں گم مجھ کو
اس طرح پیار سے دیکھا نہ کرو تم مجھ کو
ہے نام کو ہکن اے جانِ شیریں آج تک زندہ
وہی جیتے ہیں اپنی موت سے پہلے جو مرتے ہیں
زبان رو کے رہو تلوار چل جائے تو چل جائے
جو دل میں زخم پڑ جاتے ہیں وہ مشکل سے بھرتے ہیں
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
**********************************