donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Hameed Azimabadi
Poet
--: Biography of Hameed Azimabadi :--

 

 حمید ؔعظیم آبادی 
 
حمید عظیم آبادی ایک مخلص شاعر تھے۔ شاعری سے انہیں خاص رغبت تھی۔ انہوں نے اچھی شاعری کی ہے۔ انہیں سبھی اصنافِ شاعری میں کمال حاصل تھا۔ لیکن غزل سے خاصی دلچسپی تھی۔ ان کے کلام میں دردؔ دہلوی، آتش اور شادؔ کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ انہیں تصوف سے خاصہ لگا ئو تھا۔ اس لئے ان کی شاعری میں گداز ، درد مندی، انکساری، بے نیازی اور حق گوئی ملتی ہے۔ وہ کلا سیکی اسلوب میں جدید مضامین شامل کر دیتے ہیں ۔ ان کے تلامذہ کی فہرست بہت لمبی ہے۔ حمیدؔ کی نثری خدمات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
 
 حمید ؔعظیم آبادی 1986 ء میں لودی کٹرہ عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید عبد الحمید اور تخلص حمیدؔ تھا۔ ان کی زندگی بہت ہی نشیب وفراز سے گذر ی ہے۔ والد کے انتقال کے بعد اسکول کی تعلیم بند ہو گئی۔ لیکن انہیں پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ خود ہی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ عربی اور فارسی میں دسترس حاصل کی۔
 
ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں   ؎
 
جگر پہ ہاتھ خدارا نہ چارہ گر رکھنا
 بھڑک اٹھے گی یہ آتش ذرا خبر رکھنا
٭
ہے حاکمِ مطلق عقل رسا، پہلو میں دل بیمار بھی ہے
 عاشق کی کشاکش کیا کہئے، مجبور بھی ہے مختار بھی ہے
٭
ساغر لئے ہاتھوں میں بہار آکے کھڑی ہے
 جس روز سے ساقی سے میری آنکھ لڑی ہے
 
حمید عظیم آبادی 1963 ء میں انتقال کر گئے۔
 
*****
حمید عظیم آبادی 
 سید عبد الحمید( قلمی نام : حمید عظیم آبادی) ولد سید یوسف حسین ۱۸ فروری ۱۸۹۶ء بمطابق یکم رمضان المبارک ۱۳۱۴ھ پٹنہ  سیٹی کے محلہ لودی کٹرہ میں پیدا ہوئے ۱۹۱۵ء میں میٹرک درجہ میں اول میں پاس کیا مگر والد کے اچانک انتقال کے سبب کالج کی تعلیم جاری نہ رہ سکی۔ پھر بھی آزادانہ مطالعہ اور اساتذہ کی تربیت کے سبب ان کی علمی استعداد اتنی تھی کہ بی اے کے طلباء کو فورسی اور اردو پڑھایا کرتے تھے۔ ۱۹۵۶ء میں ترک وطن کرکے سکھر( پاکستان) چلے گئے جہاں مجلس ادب کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اس ادارے کے زیر اہتمام ادبی نشستوں کے انعقاد کے علاوہ رسالہ’’ جام جم‘‘ بھی شائع کیا۔ ۱۹۶۳ء میں پٹنہ آئے تو وطن کی مٹی نے واپس نہ جانے دیا۔ بیمار ہوئے اور کچھ دنوں تک اسپتال میں بھی رہے۔ اس دوران زیادہ تر ان کے احباب ہی تیمار داری میں مصروف ہے جن میں سید شاہ فرید الحق عمادی ،محمود علی خاں صبا اور میری والد محترم پروفیسر محمد علی خاں وغیرہ پیش پیش تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آخری دنوں میں انتہائی نا توانی کے باوجود اپنے ہاتھوں سے یہ شعر لکھ کر انہوں نے والد محترم کے حوالے کیا تھا۔
رشتے ناطے تو فقط کہنے کی باتیں ہیں حمید
 وقت پر کام جو آجائے وہی اپنا ہے
۶؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو پٹنہ میں ہی وفات پائی اور حضرت شہاب الدین پیر جگجیوت کے مزار واقع کچی درگاہ کے پوربی احاطے میں دفن ہوئے۔ دانش عظیم آبادی اور عطا کاکوی نے قطعات تاریخ لکھے۔ عطا کاکوی کا قطعہ تاریخ درج ذیل ہے۔
 شاد ہی کے دل سے نکلا یہ سن مرگ حمید
 جانشیں شاد ہیں اب خلد میں مہمان شاد
۱۹۶۳ء = ۱+۱۹۶۲( عطا کاکوی)
حمید کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۱۳ء میں شعر گوئی سے ہوا۔ تین برس تک مبارک عظیم آبادی کے حلقہ شاگرداں میں رہے پھر شاد عظیم آبادی کے سلسلہ تلمذ میں (۱۹۱۵ء ) شامل ہو گئے اور ان کی وفات کے بعد خود اساتذہ سخن میں شمار کئے جانے لگے۔ وہ کلاسیکی طرز اظہار کے ایک کہنہ مشق شاعر کی حیثیت سے خاصے معروف ہیں۔ اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ہند و پاک میں رہی ہے۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ عرض کے ماہر تھے اور اس فن سے متعلق ان کی کئی کتابیں و ادبی موضوعات پر لکھے ہوئے ان کے مقالے اس عہد کے اہم رسائل و جرائد میں جگہ پاتے رہے ہیں۔ ان کی ایک نثری کتاب ’’ بہار میں اردو‘‘ کے تصنیف شدہ مگر غیر مطبوعہ ہونے کی اطلاع سلطان آزاد کی کتاب میں موجود ہے۔ مگر ان کی ادبی خدمات کا سب سے نمایاں اور روشن پہلو اپنے استاد شاد عظیم آبادی کے مجموعہ کلام ’’ میخانہ الہام‘‘ کی اشاعت ہے۔ دراصل وہ کلام شاد کے مرتب کی حیثیت سے بے حد قابل احترام ہیں۔ چوں کہ ابتدائی دور میں اگر اس طرف توجہ نہ کی جاتی تو شاد جیسے شاعر کا بہت سارا کلام ضائع ہو جاتا۔ حمید کا دیوان’’ سروش میکدہ‘‘ کے نام سے سید محمود علی خاں صبا نے ۱۹۷۵ء میں شائع کیا تھا۔
 حمید کی ایک غزل کے چند اشعار بطور نمونہ کلام نقل کرتا ہوں
 سوز غم یوں برق در آغوش ہے دل کے لئے
 ہو مسافر جس طرح بے تاب منزل کے لئے
 دیدنی ہیں دست قدرت کی عنایت پاشیاں
 اتنے سامانِ طرب ، اک نقش باطل کے لئے
 منزلیں خود چومتی ہیں اس کے مجنوں کے قدم
 اور دنیا ہے کہ سرگرداں ہے منزل کے لئے
 جلوئے رنگیں تو پردہ ہے حجاب ناز کا
 لوگ کیوں مجنوں بنے پھرتے ہیں محمل کے لئے
 سانس بھی خار خلش زابن کے چبھتی ہے حمید
 اک بلائے جاں محبت ہو گئی دل کے لئے
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
*********************************************

 

 
You are Visitor Number : 1785