donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Hasan Nawab
Poet
--: Biography of Hasan Nawab :--

 

 حسن نواب حسن 
 
 
سید حسن نواب (تخلص : حسن) ولد سید خورشید نواب تاریخی شہر گیا میں تعلیمی سند کے مطابق۲؍ نومبر ۱۹۴۰ء کو پیدا ہوئے۔ سلسلہ نسب ہمایوں کے قرابت دار دائود علی خاں کی وساطت سے امام علی رضا سے ملتا ہے۔ والد سرکاری وکیل تھے۔مگر ذریعہ معاش بنیادی طور پر زمینداری تھا۔ کثیر الاولاد بھی تھے۔ اس لئے زمیندار ی کے خاتمہ کے بعد وہ طرز رہائش باقی نہ رہ سکا جو داد ا ارشاد حسین کے زمانے میں تھا۔ حسن نواب نے لڑکپن میں اپنے اسکول کے مولوی اور گھریلو استاد مظفر حسین ضبط کابری سے فارسی کی ابتدائی کتابوں کے ساتھ علم العروض کا بھی درس لیا۔ پہلے ہادی ہاشمی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی پھر بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے میں داخلہ لیا مگر اسی درمیان لائف انشورنس کارپوریشن میں ڈیولپمنٹ آفیسر کی ملازمت مل گئی اور تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اسی ملازمت میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے اے ڈی ایم کے عہدہ تک پہنچے ۔۲۰۰۰ء میں ریٹائر منٹ کے بعد فی الحال ایل آئی سی ٹریننگ سنٹر میں سنیئر فیکلکٹی ( لکچرر) کے عہدے پر مامور ہیں۔ ۱۹۵۹ء کے آس پاس مظفر پور کے رئیس ظہیر حسین صاحب عرف نبن کی صاحبزادی سے شادی ہوئی ۔ ان سے ایک بیٹی اور ایک بیٹے محمد علی ارمان ہیں۔ دونوں ہی شادی شدہ ہیں اور بر سرکار بھی۔ فی الحال حسن نواب اپنے ذاتی مکان واقع کنکڑ باغ پٹنہ میں مقیم ہیں اور پٹنہ کے علاوہ گیا کی متعدد ادبی، علمی اور سماجی انجمنوں کی سرپرستی کرتے ہوئے بے حد فعال ہیں۔
 
 حسن نواب کو علمی و ادبی ذوق وراثت میں ملا ہے۔ اس وراثت کا سلسلہ دبستان بہار کے ایک اہم شاعر بہار حسین آبادی تک پہنچتا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے ادبی ذوق و شوق کی آبیاری میں ان کے دادیہالی بزرگوں سے زیادہ نانیہالی بزرگوں کا حصہ رہا ہے۔ ابتدا سے ہی انہیں گیا کی ادبی محفلوں میں بھی شرکت کا موقع ملا جو ترقی پسند تحریک کے حوالے منعقد ہوتی تھی۔ بعد کے دنوں میں کلام حیدر ی اور ان کے معاصرین کے ساتھ ان کا رابطہ رہا۔ مظفر پور اور پٹنہ میں قیام کے دوران بھی اہل ادب سے ان کی قربت رہی اور جب وہ مستقل طور پر پٹنہ میں رہنے لگے تو یہاں کی ادبی محفلوں کی جان بن گئے۔ ۲۰۰۳ء میں رسالہ’’ سہیل‘‘ گیا نے ان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق ایک خاص نمبر شائع کیا جس کی خاصی پذیرائی ہوئی۔ اب تک ان کا کوئی شعری مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا مگر اطلاعات کے مطابق تقریباً ڈیرھ سو نظموں کا ایک مجموعہ زیر اشاعت ہے۔
 
 حسن نواب نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی۔ ان کا کلام تواترکے ساتھ ہندو پاک کے مختلف رسالوں میں شائع ہوتا رہا ہے۔ جس کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ اردو کی کلاسیکی شاعری خصوصاً مرثیوں کے مطالعہ نے ان کے ذہن پر خاصے اثرات مرتب کئے ہیں۔ بہر حال میں نے بہ وجوہ اپنے ایک مضمون ( مطبوعہ ’’ سہیل گیا‘‘ حسن نواب نمبر) میں انہیں نظم کاشاعرقرار دیا ہے اور ان کا امتیاز یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے عہد کے تازۃ ترین واقعات اور ٹوپیکل Issues کو تخلیقی حسن کے ساتھ اپنی نظموں میں پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ میں اپنے اس خیال پہ اب بھی قائم ہوں اور اس میں بس اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنے بعض بزرگوں ، دوستوں اور ہم عصر ادبی شخصیتوں سے متعلق
بھی بڑی پر تاثر نظمیں لکھی ہیں۔نمونہ کلام کے طو رپر جناب بہزاد فاطمی کی اہلیہ کے انتقال پر کہی گئی
 
نظم کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
 ہمسفر کون سدا ہوتا ہے بیوی کے سوا
 کون ہمدرد بڑا ہوتا ہے بیوی کے سوا
ہم نوا کون بھلا ہوتا ہے بیوی کے سوا
 کون مصروف وفا ہوتا ہے بیوی کے سوا
 کون کر سکتا ہے کرتی ہے جو خدمت بیوی
 ہے سراپا عملِ عشق و محبت بیوی
 صبح ہوتی ہے تو کھل جاتی ہے پھولوں کی طرح
 دھوپ میں چھائوں لگے پیڑ کی بانہوں کی طرح
 اور سر شام یہ جلتی ہے چراغوں کی طرح
 پیاسی چٹان سے مل جاتی ہے جھرنوں کی طرح
 ہر برے وقت میں یہ ساتھ نبھا دیتی ہے
 اور سفر زیست کا آسان بنا دیتی ہے
ان کی غزلوں میں بھی ایک تسلسل خیال ملتا ہے۔ چند اشعار درج ذیل ہیں۔
 جب تک آئے گا جہاں میں دن کوئی میزان کا
 کتنے عیسیٰ کاٹ ہی لیں گے صلیبوں کا سفر
 چومیں گے اس کے قدم لعل و گہر کے پھول بھی
 راہِ حق میں ہنس کے کاٹا جس نے کانٹوں کا سفر
 وقت کے کتنے یزید و شمر آئیں گے مگر
 اب نہ سر شبیر کا ہوگا نہ نیزوں کا سفر
٭٭٭
 
 نہ وہ زمین میں تھا اور نہ آسمان میں تھا
 کبھی یقین میں مرے تھا کبھی گمان میں تھا
میں روز گھر سے نکلتا تھا ڈھونڈنے کے لئے
 مکین بن کے وہ خود میرے ہی مکان میں تھا
 خطاخود اپنی نگاہوں کی تھی حسنؔ ورنہ
 وہ میرے جسم میں تھا وہ تو میری جان میں تھا
٭٭٭٭
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
You are Visitor Number : 1580