donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ibn Munir Siddiqui
Writer
--: Biography of Ibn Munir Siddiqui :--

Ibn Munir Siddiqui

 

ابن منیر صدیقی
 
ابن منیر صدیقی کا نام لقمان احمد صدیقی اور والد کا نام شیخ منیر احمد صدیقی ،مرحوم، ہے ان کی پیدائش یکم فروری، ۱۹۵۲ء میں بمقام کرھنی ضلع شاہ آباد بھوجپور ہوئی، میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ آبپاشی میں ملازت کرنے لگے پہلا افسانہ آرتی تھالی، امرتسر کے ایک رسالہ جانثار، جون ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا، دراصل ابن منیر صدیقی نے اپنی آدبی زندگی کا آغاز ہندی ڈرامہ اور ہندی کہانی سے کیا ہے بعد میں وہ اردو میں لکھنے لگے ہیں اور آج تک اردو میں لکھ رہے ہیں ان کی کہانیاں فنی تکنیک پر پوری اترتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہت جلد انہوں نے اپنی ادبی صلاحیت منوالی ہے حالانکہ انہوں نے اپنے ہمعصروں سے مقابلے میں بہت کم لکھا ہے تقریباً اٹھارہ برسوں سے لکھ رہے ہیں لیکن اب تک ان کی صرف پچیس کہانیاں شائع ہوئی ہیں ایک افسانوی مجموعہ ادھوری کہانی کے عنوان سے ۱۹۸۳ء میں شائع ہواہے اس کی روشنی میں ان کے فن کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے عارف مارہروی نے ادھوری کہانی کے تعارف میں لکھاہے۔
ان کی پیش کش میں سادگی بھی ہے اور فن کاری کلبی لہذا یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ جناب ابن منیر صدیقی اس منزل کی طرف تیزی سے گامزن ہیں جہاں پہنچ کر فنکار اپنے نقوش تاریخ کے صفحات پر ابھارتا ہے ۔ حیات وارثی صاحب نے بھی اس مجموعے کے تقریظ میں کچھ اس طرح کی باتیں کہی ہیں، نئی نسل کے جن افسانہ نگاروںپریم چند سے اثر قبول کیا ہے اور ان کی سادگی وپرکاری کو فکری رہنما نمایا ہے ان میں ابن منیر صدیقی ممتاز حیثیت کے مالک ہیں، کردار نگار ی اور زبان وبیان کے لحاظ سے بھی اس مجموعے کی بیشتر کہانیاں اچھی ہیں آرتی کی تھالی، متوازن لکیر، اور، سیاسی نسخہ میں اچھی کردار نگاری ہے ساتھ ہی اس میں تحسس کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کی ہے، ادھوری کہانی سرخ روشنی، اور آنسوئوں کے موتی، میں انہوں نے مقصد یت کو پیش کیا ہے مختصر یہ کہ ابن منیرکے افسانوں میں ماجرا سازی، کردار نگاری اور زبان وبیان کی سلاست ہر جگہ موجود ہے کچھ کہانیوں میں پیارومحبت اور حسن وعشق کی ترجمانی کی گئی ہے، منظر نگاری میں بھی وہ کامیاب رہے ہیں، جھرنے سے گرتادودھبا پانی پر شور مگر دلکش آواز دور تک بل کھاتی ندی، دونوں جانب چیٹر، بانس اور جنگلی جھاڑیاں شام کا سہانا سماں، شفق کی ہلکی لالی، پہاڑ کی چوٹی سے الوداع کہتی دھوپ، اس مجموعے کی بیشتر کہانی میں کہنے کا انداز بہت ہی سیدھا سادہ ہے ،اور موضوعات میں تنوع کی بھی کمی ہے، اس لئے تاثیر میں کچھ کمی پیدا ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے پریم چند کی روایت کو قائم رکھا ہے، مصنف کبھی حیات وکائنات کی حیثیت سے نظر آتا ہے کبھی ناقد کی حیثیت سے، کبھی وہ حیات وکائنات کی تزئین وتحسین کے فرائض انجام دیتا نظر آتاہے اور کبھی تکمیل کے فکروتخیل کی ان وسعتوں گہرائیوں اور بلندیوں کے ساتھ یہ افسانے فن کے ایسے نمونے ہیں جو پریم چند کی بے نظیر فنکاری کی یاد دہانی کرتے ہوئے مصنف کیلئے ایک بہتر مستقبل کی پیش بندی کرتے ہیں۔
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
++++
 
 
You are Visitor Number : 1603