شاہ اسمعیل کی علمی و ادبی خدمات سے بنیادی طور پر تحقیق و تدوین سے عبارت ہیں۔ ان کے زیادہ تر مضامین علمی اور اصلاحی نوعیت کے ہیں جو خدا بخش جنرل میں شائع ہوتے ہیں دیگر ادبی کاوشوں کے سلسلے میںڈاکٹر قاسم خورشید کا بیان قابل توجہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں
’’ انہوں نے عربی مخطوطات مفتاح الکنوز کی فہرست سازی کے دوران جس شدت اور انہماک کا ثبوت پیش کیا وہ تحقیق کے عمل میں اب کم ہی نظر آتا ہے۔ مفتا الکنوز خدا بخش لائبریری کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ اور اس میں مولانا کی عرق ریزی کا اہل علم و فن کو آج بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ یہی حال نادر جنتری کی ترتیب و تزئین کا بھی ہے۔ مولانا کی عربی کی مشہور تصنیفات ’’ الدرسۃ الحمیدہ‘‘ اور القصص و الحکم کا عربی میں خاصا شہرہ رہا ہے۔ روح نے مرثیے بھی لکھے۔ وہ میر انیس سے خاصے متاثر تھے لیکن ان کا الگ رنگ رہا۔ خصوصی طور پر ایک مرثیہ جو سانحہ ارتحال سید شاہ تقی حسند بلخی تخلیق کیا تھا آج بھی اس کے مطالعے سے وہ سانحہ زندہ ہو جاتا ہے۔
روح کی شاعری میں تصوف کے بہترین عناصر کے ساتھ ساتھ دنیا کا مشاہدہ بھی ہے۔ ان کے اشعار احساس کی شدت اور تجربے کی صداقت کا نمونہ ہیں۔ اور ان کا اسلوب بھی ان کی غزلوں اور نظموں کا ایک بڑا سرمایہ اپنی یاد گار چھوڑا ہے جو اشاعت کا منتظر ہے۔ چند اشعار بطور نمونہ درج ہیں۔
حیات موت سے پہلے حیات موت کے بعد
عجیب ربط نہاں موت کا حیات سے ہے
میں مشتِ خاک سہی میری کائنات ہی کیا
مقابلہ تو مگر ساری کائنات سے ہے
٭٭٭
دل خون رو رہا مگر آنکھ تر نہ ہو
اے ضبط! گھرکی بات ہے باہر خبر نہ ہو
٭٭٭
مرحلہ اور کوئی سخت ہے آنے والا
پھول برسانے لگابرق گرانے والا
ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی یہ سوچا ہوتا
سر اٹھاتا نہیں احسان اٹھانے والا
گھر تو جل بجھ کے بہر حال ہوا راکھ کا ڈھیر
چھوڑے کوئی بھی ہو آگ لگانے والا
٭٭٭
زندگی ایسی کٹی ویسی کٹی ، جیسی کٹی
مختصر یہ ہے بہر صورت گزار ہو گیا
کتنی عظمت بڑھ گئی ان کی کہ اب ان کابھی نام
لفظ قاتل کے لئے ایک استعارہ ہو گیا
حرم تو اپنی جگہ حرم ہے مگر وہ شیخ حرم نہیں ہے
جو کل زمانے میں محترم تھا وہ آج کیوں محترم نہیں ہے
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
٭٭٭