donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Moin Giridihvi
Poet/Writer
--: Biography of Moin Giridihvi :--

 

تعارف
 
معین گریڈیہوی
 
نام: محمد معین الدین انصاری
قلمی نام: معین گریڈیہوی
(والد:محمد عبداللطیف انصاری  (مرحوم
والدہ:خیرالنساء
(تاریخ پیدائش:12-04-1969 (بارہ اپریل انیس سو انہتر
( مستقل پتہ: محلہ، گھگھرا۔مقام و پوسٹ ،پہرا۔تھانہ ،گانواں۔ضلع ،گریڈیہہ (جھارکھنڈ
تعلیم: بی اے انرس(اردو)  فرسٹ کلاس۔‘ فاضل(فارسی)  فرسٹ کلاس ۔‘ پرائمری  ٹیچرس ٹریننگ (فرسٹ)۔
تکنکی تعلیم: کتابت(کیلی گرافی) کمپیوٹر آپریٹنگ اور ڈبلو ڈی سی کی طرف سے نکڑ ڈراموں کی تربیت۔
ملازمت و پیشہ:(صحافت ،درس وتدریس وغیرہ) تقریباًپچیس سالوں سے روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ میں مختلف النوع ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ اسی روزنامہ کے فلم ایڈیشن، خواتین ایڈیشن اور دیگر ایڈیشنوں کی ایڈیٹنگ۔ملت  اردومڈل اسکول پھلواری شریف پٹنہ میں درس و تدریس۔ہندستان کی مختلف زبانوں کے روزناموں اور رسالوں میں مضامین ، افسانوں ، غزلوںاور نظموں کی گاہے بگاہے اشاعت۔ ریڈیوپر مقالات کے نشریے ‘بڑے بڑے آل انڈیامشاعروں میں شرکت اور اسٹیج ڈرامو ں میں فن اداکاری و ہدایت کاری کا طویل ریکارڈ ۔
اخباروں سے وابستگی (سابقہ و موجودہ):ساتھی،پیاری اردو، نوید صبح، مثلث، عظیم آباد ایکسپریس،اندنوں،  قومی تنظیم۔
فیچرفلم ،ٹیلی فلم وسیریلس:’مہوا‘ (بھوجپوری  فیچر فلم)  جی ہاں حضور لیکن…(سیریل)  آج کا بھارت، وہ چلا گیا،آشنکا،سنگھرش، پیار کا ٹکڑا(سبھی ٹیلی فلمیں)
نکڑڈرامے: ’’ دھرم سنگم‘‘ (پہلی بار۔نکڑخاموش ڈرامہ)’’ مت بانٹو انسان کو ‘  وہ کون تھی‘لہو کے رنگ‘ ہنسا پرم و دھرم‘ چٹھی آئی ہے ‘ اب بس کرو‘پیغام‘بھرن ہتیا‘کوئی اکیلا نہیں،ایسا تو ہو ہی سکتا ہے،
اسٹیج ڈرامے :’’ آتم ہتیا‘(پہلی بار)اکیسویں صدی کی عورت‘اب بس کرو‘شتر مرغ‘ ٹھنڈا گوشت‘ آدمی جو مچھوارہ نہیں تھا‘ وہ کون تھی‘ دوب جنم آئی‘ پیار کا انصاف، میں ڈائن نہیں ‘ عاشق کا جنازہ‘ رہنے کو گھر نہیں ‘ سپاہی کی ماں‘ گھر گھورن لیلا‘بے زبان مسیحا‘ (انگیکا)  ’منزل ‘  (اردو)پیغام  (اردو)  لکشمی ‘ ملاوٹ ،امرائو جان (اردو)۔
ہدایت کاری: منزل، پیغام، لکشمی، ملاوٹ، بے زبان مسیحا، بھرن ہتیا،
ڈرامہ نگاری: منزل، پیغام، لکشمی، ملاوٹ، بھرن ہتیا،گلابو گلفام کی، میں ڈائن نہیں،
      افسانہ نگاری:  آنکھوں کا لہو، زمانہ بدل گیا‘درد کی گڑیا‘سوتیلی،بلیک ڈائمنڈ،ناکردہ گناہ کی سزا، منزل، حوصلہ، ہرازخم، حویلی کا چراغ، مسافر کی عید،  الیکشن ،صیام، ٹوٹتے رشتوں کا عذاب،معصوم روحوں کی چیخ، احساس، کرشن جی کا تعزیہ۔
        اسٹیج پرفارمنس: تلاوت، حمد ، نعت، غزل، گیت، نظم،ممیکری، ڈرامہ،سانگ ڈانس۔
     بحیثیت قلمقار:حمد ‘نعت‘نظم‘ غزل‘گیت‘ڈرامہ‘افسانہ‘سماجی و ثقافتی مضامین۔
       جہاں تحریریں شائع ہوئیں:قومی تنظیم، راشٹریہ سہارا(دہلی)  مرکز(لکھنو) اخبار مشرق (کولکاتا) آبشار(کولکاتا)آزاد ہند(کولکاتا) ہندستان (ممبئی)  اخبار عالم (ممبئی)آواز ملک (بنارس) عالمی سہارا(دہلی) پرتاپ (دہلی) آج (ہندی۔پٹنہ) ہندستان (ہندی ۔ پٹنہ)  رانچی ایکسپریس(ہندی۔ رانچی)آنند ڈائجسٹ (ہندی رسالہ۔ پٹنہ) پتوار(اردو رسالہ۔پٹنہ)شاندار(اردورسالہ۔اعظم گڑھ)
       ادبی ‘ ثقافتی‘ سماجی‘ تعلیمی و دیگر اداروں سے وابستگی:اردو جرنلسٹ ایسو سی ایشن،پٹنہ کے ممبر۔بہارشرم جیوی پتر کار سنگھ، پٹنہ کے ممبر۔’’شتر دھار‘‘ پٹنہ کے ممبر۔آرٹ اینڈ آرٹسٹکو پٹنہ کے صدر۔ملت اردو مڈل اسکول پھلواری شریف میں معلم۔
اعزازات: لکشمی نارائن شاستری ایوارڈ((1997 
 
رنگ کرم و پتر کار رتن ایوارڈ (1998
خصوصی کلا شری ایوارڈ(1998۔گورنر اخلاق الرحمان قدوائی کے ہاتھوں
چتر گپت ایوارڈ(1998۔فلم اداکار رضا مرادکے ہاتھوں ممبئی میں
رامائن تیواری ایوارڈ(1999
جھار کھنڈ رتن ایوارڈ(2001 ۔اسپیکر اندر سنگھ نامدھاری کے ہاتھوں رانچی میں
عظمت اللہ ایوارڈ(2004 
پتر کار شری ایوارڈ(2004 
پتر کار رتن ایوارڈ(2004 
حبیب تنویر ایوارڈ(2009 
گلوری آف بہارایوارڈ(-2009 سابق وزیر اعلی جگن ناتھ مشرا کے ہاتھوں
پتر کار سمان(1011
بہار رتن ایوارڈ (  -2011وزیر محنت جناردھن سنگھ سگریوال کے ہاتھوں
لیجنڈ دلیپ کمار ایوارڈ (2011۔کولکاتا
اس کے علاوہ درجنوں ادبی و ثقافتی پروگراموں ومہوتسو میں شمولیت اوربہترین کار کردگی کے بنا پر کئی بارسند اور مومنٹو سے سرفراز۔
پتہ: معین گریڈیہوی۔ قومی تنظیم۔ پٹنہ۔4
رابطہ نمبر:09708111470, 09135400171   
 
کتابیں
 زیراشاعت
(1 ) آنکھوں کا لہو (افسانوی مجموعہ)
  (بہار اردو اکادمی، پٹنہ سے اشاعتی تعاون یافتہ)
زیر ترتیب
(1)پیغام      (ڈراموں کا مجموعہ)
(2 )گلستاں     (غزلوں، نظموں کا مجموعہ)
(3 )کلیاں      (گیتوںکا مجموعہ)
(4 )نور مجسم    ـ(مجموعہ حمد و نعت)
(5 ) ستارے  (فلمی شخصیات پر مضامین)
(6 )روبرو     (انٹرویو کا مجموعہ)
 
 معین گریڈیہوی
 
کام جیسا بھی ہو اگر انسان  دل سے کرتا ہے تو  اس میں کامیابی ضرور ملتی ہے  اور کسی کے من میں کچھ کر دکھانے کی خواہش ہے ‘ تو وہ کبھی خالی نہیں بیٹھے گا ‘ اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا رہے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے اپنے آپ راہیں بھی  کھل جاتی ہیں ۔ اسی طرح معین گریڈیہوی کو خالی بیٹھنا بالکل پسند نہیں ۔ اگر وہ دفتر سے فرصت پاتے ہیں  تو اپنے روم می کہانی و مضمون نگاری  یا کہیں ڈراموں کی ریہر سل  یا کسی سیریل و فلم  کی شوٹنگ  میں لگ جاتے ہیں ۔
 
معین گریڈیہوی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ صحافت  کے ساتھ ساتھ  فن اداکاری کی دنیا میں بھی ان کا نام روشن ہوگا ۔اتفاقاً انہیں ایک ٹیلی فلم  میں کام کرنے کا موقع ملا تو  اس فلم کا کردار انہوں نے بحسن و خوبی اداکیا۔ جس کی تعریف وہاں موجود یونٹ کے تمام لوگوں   نے کی  تب ان کی دلچسپی اداکاری کی طرف بڑھی اور اس کے بعد فیچر فلموں ‘ سیریلوں  اور درجنوں ڈراموں میں اپنے فن کا جوہر دکھائے ۔
معین گریڈیہوی نے  چھوٹے پردے کی فلم ’’ آج کا بھارت‘‘ سے فن اداکاری کی دنیا  میں قدم رکھا۔ اس فلم میں انہوں نے کشمیری دہشت گرد کا رول بخوبی ادا کرکے ناظرین کا دل جیت لیا۔ اس کے بعد ’’ پیار کا ٹکڑا‘‘ میں ایک غنڈہ موالی  بن کرآئے۔تیسری فلم ’’کرم ستیہ ‘‘ تھی۔ان فلموں میں اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کرنے کے بعدمعین گریڈیہوی نے  آکاش یوگی  کی ہدایت  میں بنی  بھوجپوری  فیچر فلم’’مہوا‘‘ میں کام کیا‘ جس میں وہ اس  فلم کے ہیرو کے  کالج کے ایک دوست کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں اس وقت وزیر اعلی بہار اور راجد سپریموں لالو پرساد یادو بھی نظر آئے  تھے۔اس فلم میں ہیروئن میرا مادھوری  اور ممبئی فلم انڈسٹری کے کیریکٹر ایکٹر آنجہانی سی ایس دوبے بھی تھے ۔فلم ’’مہوا‘‘ میں کام کرنے کے بعد ٹیلی فلم’’ وہ چلاگیا‘‘ میں نظر آئے۔
 
اس بات سے انکار نہی  کیا جاسکتا ہے کہ معین گریڈیہوی ’’ آل رائونڈر فنکار ہی  وہ  ایک ایسے  اداکار ہیں  کہ چاہے  جو بھی رول داس  کردار  میں  ڈھال  دیتے ہیں ۔چیلنج سے بھرا کردار ادا کرنا ان کے شوق میں شامل ہے ‘ اس لئے انہوں نے  ٹیلی فلم ’’ آشنکا‘‘ میں ایسے ایسے معذور انسان کا کردار ادا کیا  جو جسم کے تقریباًہر اعضاء ہاتھ ‘ ہائوں ‘ منہ‘ آنکھ‘ زبان وغیرہ سے معذور ہے  اور وہ سڑک پر بھیک مانگتا ہے ۔ اس فلم میں  انہوں  نے  منفی  اور مثبت دونوں طرح کے رول ادا کیا تھا۔ جہاں انہوں نے  معذور انسان کا رول ادا کیا  وہیں  اسی فلم میں ایک ڈانسر بھی  بنا ہے ۔ 
 
چند ٹیلی فلم  اور فیچر فلم  کے بعد انہوں نے سیریلوں میں  دلچسپی دکھائی اور پٹنہ دور درشن سے نشر ہونے والا  اکبر بیربل کی کہانی پر مبنی سیریل’’ جی ہاں حضور… لیکن‘‘  میں پدی میاں کے کردار میں جلوہ گر  ہو کر  بہترین رول ادا کرنے  کی وجہ سے انہیں کافی مقبولیت  ملی ۔ انل سنہا کے اس سیریل میں  انہو ں نے چھ قسطوں میں نرکزی کردادا بحسن و خوبی ادا کیا ۔سیریل میں قاضی صاحب کے ذریعہ دھوکہ اور چند ٹھگوں کے ذریعہ بکرے کو بھیڑیا کہہ کرٹھگ لئے جانے کا سین ناظرین آج  بھی یاد کرتے ہیں ۔ ’’جی ہاں حضور …لیکن ‘‘کے بعد  انہو ننے ٹیلی فلم ’’ وصیت‘‘ میں ایک نوجوان لیڈر کا رول ادا کیا‘ اور موجودہ  دور کی سیاست کو اپنے کردار کے ذریعہ ناظرین کے سامنے اچھے ڈھنگ سے پیش کیا ۔
 
ان کی جھولی میں  ایک اور فیچر فلم ہے‘ اور وہ ہے شریمان مشرا کی بھوجپوری  فلم’’ بیاہ‘‘ جس میں بالی ووڈ کی معروف ادا کارہ سشما سیٹھ نے اہم کردارادا کیا ہے اورستنام کور  اس کی ہیروئن ہیں۔ اس فلم میں معین گریڈیہوی کا نام بحیثیت آرٹ ڈائریکٹر ہے۔  انہو ں نے کئی فلموں  کے لئے بطور پی آر او  بھی کام انجام دیا ہے ۔
 
خاموش طبیعت ‘ سادہ مزاج اور کافی ملنسار اور نیک سیرت  و اچھی صفت انسان معین گریڈیہوی نے اداکاری  کی تربیت کسی انسٹی چیوٹ سے نہیں لی‘  اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی۔فلموں اور سیریلوں کی بہ نسبت  ان کا زیادہ رجحان  ڈراموں میں ہے۔ صحافت میں مصروفیت کے باوجود تھیٹر سے جڑے رہنا  اس بات کی دلیل ہے کہ  رنگ منچ بھی ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ جس طرح  پردے  پر اپنی اداکارانہ صلاحیت  سے ناظرین کا دل جیت لیااسی طرح رنگ منچ پر اپنے فن کا  جوہر دکھا کر شائقین کو گرویدہ بنا لیا۔تو وہیں ریڈیو پر کئی سماجی ‘سیاسی، تعلیمی  و ادبی کہانیاں نشر کرکے سامعین  کے دل گھربنالیا۔
 
سب سے پہلے خاموش ڈرامہ ’’ دھرم سنگم‘‘ سے منچ پر آئے ۔اس کے بعد ڈراموں کا سلسلہ شروع ہو گیا ’’ مت بانٹو انسان کو‘ لہو کے رنگ‘‘ آتم ہتیا‘ ہنسا پرم و دھرم‘ چٹھی آئی ہے ‘‘ اور نورفاطمہ کے ساتھ ’’ اکیسویں صدی کی عورت‘‘ اور’’ اب بس کرو‘‘ جیسے نکڑ  اور اسٹیج ڈراموں  میں کام کرکے اپنا نام روشن کرلیا اور ناظرین  کے دل میں جگہ بنا لی۔
 
اسٹیج پر زیادہ سے زیادہ تالیاں بٹورنے والے فنکار معین گریڈیہوی کو ’’ شتر مرغ‘ ٹھنڈا گوشت‘  آدمی جو مچھوارہ نہیں تھا‘ وہ کون تھی‘ دوب جنم آئی‘ پیار کا انصاف میں ڈائن نہیں ‘ عاشق  کا جنازہ‘ رہنے کو گھر نہیں ‘ سپاہی کی ماں‘ گھر گھورن لیلا‘ ‘ اور انگیکا ڈرامہ’’ بے زبان مسیحا‘‘ وغیرہ نے عروج پر لے آیا۔انہوں نے  ان ڈراموں میں مختلف کردار کے یادگار رول ادا کیا ۔ ان کے اندر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جس رول میں نظر آتے ہیں  اس پر اپنا تسلط جما لیتے ہیں ‘ اپنے آپ کو اس رول میں  ڈھال لیتے ہیں  اور اس کردار میں کھو جاتے ہیں ۔ وقت کے پابند معین گریڈیہوی نے اخباری مصروفیت کے باوجود بیک وقت چار ڈراموں پر بحسن و خوبی کام کیا ہے ‘ چونکہ ان  چاروں ڈراموں کا شو  الگ الگ تاریخوں میں ایک ہی  مہینے میں ہونے تھے۔
 
ان کی زندگی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب انہوں نے  ’’منزل ‘‘اور پیغام‘‘ جیسے لگاتار دو اردو ڈرامے تحریر کئے  اور اپنی ہی ہدایت کاری میں ان دونوں ڈراموں کا کامیاب شو کئے۔
مدرسہ سے فاضل اور کالج سے بی  اے تک سند پانے والے معین گریڈیہوی کئی ادبی‘ ثقافتی‘ دینی اور تعلیمی اداروں اورتنظیموں سے بھی منسلک ہیں ۔
 
ریاست جھار کھنڈ کا ضلع گریڈیہہ کے ِپِہرا گائوں  سے تعلق رکھنے والے  کئی خوبیوں کے مالک معین گریڈیہوی  ایک کامیاب رنگ کرمی  کے ساتھ ساتھ باصلاحیت اداکار ‘ ہدایت کار ‘ کہانی کار ‘ کیلی گرافر(کاتب) کمپیوٹر آپریٹر کے علاوہ فلمی صحافی بھی ہیں۔ انہیں شعرو شاعری کا بھی شوق ہے ۔ انہوں نے کئی خوبصورت آزادنظمیں بھی کہی ہے  ۔ پٹنہ  اور رانچی سے ایک ساتھ  شائع ہونے والا اخبار’’ قومی تنظیم‘‘ میں تقریباً دو دہائی سے بطور سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں ۔ ان کی نگرانی میں کئی ایڈیشن نکلتے ہیں۔معین گریڈیہوی کی تحریریں  بہار و جھار کھنڈ  کے علاوہ کولکاتا ‘ لکھنئو‘ دلی ‘ بنارس‘ممبئی  وغیرہ کے بڑے اردو اور ہندی اخباروں و رسالوں  میں بھی شائع ہوتی ہیں۔
 
ان کی بہترین فنی خدمات کو دنیا نے  نہ صرف دیکھ لیا بلکہ اعتراف بھی کرلیا  ہے۔ اس اعتراف کے ثبوت میں دنیا نے معین گریڈیہوی  کو کئی اعلیٰ قدر خطابات و انعامات  سے نوازا۔۱۹۹۸ء میں اس وقت کے گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمان قدوائی نے اپنے ہاتھوں سے ’’ کلا شری ایوارڈ‘‘ سے نوازا اور ممبئی  میں معروف فلم اداکار رضا مراد  نے’’ چتر گپت ایوارڈ‘‘  سے سرفراز کیا۔ اسی سال۱۹۹۸ء میں ’’ رنگ کرم و پتر کار رتن ایوارڈ‘‘ بھی ملا ’ اس سے قبل وہ ۱۹۹۷ء میں ’’ لکشمی نارائن ساستری ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازے جا چکے تھے۔سال۱۹۹۹ء میں معین گریڈیہوی  کو’’ رامائن تیواری ایوارڈ‘‘ دے کران کی فنی خدمات کا اعتراف کیا گیا تو سال۲۰۰۱ ء کو ریاست جھارکھنڈ میں اس وقت کے اسپیکر اندر سنگھ نامدھاری کے ہاتھوں ’’ جھارکھنڈ رتن ایوارڈ‘‘ سے سرفراز کیا گیا ۔ اور سال۲۰۰۴ میں’’ عظمت اللہ ایوارڈ‘ پتر کار شری ایوارڈ‘ ‘ اور ’’پتر کار رتن ایوارڈ‘‘ ملا پھر 2009  میں حبیب تنویر ایوارڈ اورگلوری آف بہارایوارڈ(2009 ) سے بھی نوازے گئے۔ ان انعامات و اکرام کے علاوہ رنگ منچ پر سب سے اچھی کارکردگی  کے لئے انہیں کئی بارحوصلہ افزائی کی گئی۔
 
آج بھی معین گریڈیہوی دل و جان سے صحافت  اور رنگ  منچ  کی دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ہے رنگ منچ اور صحافت کے ذریعہ لوگوں کا اصلاح کرنا ۔حال مستقبل میں کئی سماجی و اصلاحی ڈراموں میں کام کرنے والے ہیں جن کا ریہرسل بھی چل رہا ہے۔
 
امید ہے کہ معین گریڈیہوی نے  جس طرح آسمان صحافت پر اپنا نام روشن کیا‘ اب قومی سطح پر فن اداکاری میں ان کا نام جگمگائے ۔ 
 
******
 
You are Visitor Number : 22611