donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Naseem Mohammad Jaan
Writer
--: Biography of Naseem Mohammad Jaan :--

Naseem Mohammad Jaan

نسیم محمد جان

 


والد کانام        خلیل الرحمن

والدہ کانام        آمنہ خاتون

تاریخ پیدائش    ۱۳؍نومبر۱۹۳۸ء

وطن        موتیہاری

تعلیم        میٹرک ،ضلع اسکول ہزاری باغ، آئی ایس سی اوربی ایس سی، مسلم یونیورسٹی علی

گڑھ، ایم ایس سی، بہاریونیورسٹی 

اہلیہ        خورشید بیگم

بیٹیاں        صبیحہ نسیم اور درخشاں نسیم

خوشحال گھرانے میں پیداہوا، بچپن اور لڑکپن بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ گزرا، ان کے نام ضیاء رحمن ۔طاہرہ خاتون ، صابرہ خاتون،وسیم محمد جان، نسرین، زرینہ ،فہیم محمدجان فیروز، کلیم محمد جان اور انجم رحمن ہیں، ان سب کواردو سے بیحدلگائوں تھا، اردو کے سارے پرچے گھر میں آجاتے تھے۔ان دنوں یہ عام رواج تھا بچوں کیلئے غنچہ آیاکرتا تھا،ہزاری باغ قریشی لائبریری سے تقریبا تمام مشہور ادیبوں کوپڑھنے کاموقع ملا، والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو ہزاروں اشعار کچھ اس طرح یاد تھے کہ ان کااستعمال اٹھتے بیٹھتے گھر میں ہوتاتھا، ان سب کا اثر شعوری اور غیر شعوری طورپر ذہن نے قبول کیا، اپنے اساتذہ میں خاص طورپرمحترم نسیم قریشی ،ایم ،یو علی گڑح، مولانا قمرالہدیٰ ،ہزاری باغ اور مولانا جسیم الدین موتیہاری کاممنون ہوں جن کی وجہ سے اردو سے عشق ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ تادم ملازمت سائنس کے ساتھ منکوحہ بیوی سارشتہ رہا، صرف فرض کی ادائیگی کرتارہا۔

میں نے افسانے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہیں، مطالعہ کاغیرشعوری طورپر اثر ضرورقبول کیا ہوگا، ایسا محسوس ہوتاہے کہ لکھتے وقت بالکل  مختلف آدمی ہوجاتاہوں، خود نہیں لکھتا کوئی اور ہے جولکھوارہاہے۔ عام طورپریہ باتیں شعری تخلیقات کے متعلق کہی جاتی ہیں مگر میرا خیال ہے ہرافسانہ نگاراس کیفیت سے دوچارہوتاہے۔ کسی بھی تحریک ، تکنیک یارجحان کی اہمیت میرے لیے بہت زیادہ کبھی نہیںرہی کیونکہ میں نے محسوس کیاہے کہ یہ پابندیاں افسانہ نگارکی انفرادیت کوختم کردیتی ہیں، ادب کی تخلیق کرناایک انفرادی فعل ہے۔ ادیب کاکسی باہری دبائو میں آنامناسب نہیں ہے۔ہاں یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ نئی تحریک ، نئی تکنیک اور نیارجحان ادب کے میدان کووسیع کرتاہے جس سے تخلیق کارکو فائدہ پہنچتاہے ہرکہانی اپنے ساتھ سب کچھ لے کرآتی ہے چاہے وہ مرکزی خیال ہو، تکنیک یابرتائو، کہانی کامعاملہ کچھ عجیب ہے۔ کبھی اخبارکی چھوٹی سی خبر،، کبھی کسی کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ، کبھی کوئی مشاہدہ، کبھی کوئی تجربہ کہانی کوجنم دیتاہے۔ پھرجس طرح ایک بیج سے بڑادرخت بن جاتاہے ٹھیک اسی طرح میرے اندرہی اندر کہانی بن جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتاہے کہ یہ کہانی کاغذپرمنتقل کرنے کیلئے مجھے مجبورکردیتی ہے۔ کوشش کرکے افسانہ نہیں لکھ پاتاہوں بلکہ مجبور کردیتی ہے۔ کوشش کرکے افسانہ نہیں لکھ پاتاہوں بلکہ مجبوراًلکھتاہوں ،ایک دبائوسے چھٹکارا پانے کیلئے یہی

وجہ ہے کہ میرے افسانوں کی تعداد کم ہے۔

(ہمارے کل افسانوں کی تعداد تقریباً سوہے۔(خود نوشت

پچھلے چند دنوں میں نسیم محمد جان کا نام کافی ابھر چکا ہے بہار کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں میں یہ بھی ایک ہیں تقریبا بیس برسوں سے کہانیاں لکھ رہے ہیں اب تک تقریبا پچاس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں ان کی کچھ کہانیاں علامتی اور تمثیلی ہیں اور کچھ داستانی رنگ کی علامتی اور تمثیلی پیرایہ بیان میں لکھی گئی کہانیاں بھی اچھی ہیں انہوں نے جہاں کہیں علامت کا سہارا لیا ہے وہاں فن کے دامن کو بھی پکڑے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا نام افسانوی ادب میں کافی روشن ہوچکا ہے،وہ کرداروں کا خاص خیال رکھتے ہیں ان کی زبان صاف ستھری ہوتی ہے وہ قاری پر کچھ تھوپنے کی کوشش نہیں کرتے، کٹی پتنگ، ریت کی دیوار، سمجھوتہ، پاگل ، راستے، بنددروازے، اور ڈائن، وغیرہ ان کی منتخب کہانیاں ہیں کہانیوں کے علاوہ کچھ ریڈیائی ڈرامے انشائے ، اور نظمیںشائع ہوچکے ہیں کچھ کہانیوں کے ترجمے ہندی میں بھی ہوچکے ہیں، نسیم محمد جان کی پیدائش ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۸ء میں گدنا سار،میں ہوئی ،ایم اے تک تعلیم حاصل کر نے کے بعد گورنمنٹ انٹر کالج چھپرہ سے منسلک ہوگئے ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۶۶ء میں ہوا، پہلا افسانہ کٹی پتنگ ، کے عنوان سے ماہنامہ، حریم، ستمبر ۱۹۶۶ء میں چھپا تھا، ادبی ذوق بر قرار رہا تو جلدہی وہ ممتاز افسانہ نگاروں میں اپنی جگہ بنالیں گے۔

’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘

*******************

 
You are Visitor Number : 811