donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Nashad Aurangabadi
Poet
--: Biography of Nashad Aurangabadi :--

 

 ناشاد اورنگ آبادی 
 
 
 عین الحق خاں (تخلص ناشاد) ابن محمد ہدایت اللہ خاں اورنگ آباد ( بہار) کے ایک تاریخی قصبہ شمشیر نگر میں ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۵ کو پیدا ہوئے۔ آبائی وطن کی مناسبت سے خود کو ناشاد اورنگ آبادی لکھتے ہیں۔ بی۔ کام تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد نارتھ ایسٹرن ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ وہاں سے سنیئر انسپکٹر آف اسٹورس اینڈ اکائونٹس کے عہدے سے جنوری ۱۹۹۳ء میں ریٹائر ہو کر محلہ سیدانہ پھلواری شریف پٹنہ میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔ ادبی طور پہ اب بھی بے حد فعال ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں ادبی تقریبات خاص طور پہ مشاعروں میں شرکت کے لئے سفر کرتے رہتے ہیں۔ مزاج میں بے حد انکسار اور درد مندی ہے اس لئے اکثر سماجی فلاح کے کاموں میں بھی مشغول دکھائی دیتے ہیں۔
 
ناشاد اورنگ آبادی اوائل عمر سے ہی شعر و سخنمیں دلچسپی لیتے رہے۔ مگر ۱۹۷۰ء سے انہوں نے باضابطہ غزلیں کہنی شروع کیں اور اسی صنف سخن میں اپنی پہچان بنائی۔ ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ’’ پرواز سخن‘‘ ۱۹۹۰ء میں بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوا۔ ایک اور مجموعہ رختِ سفر زیر اشاعت ہے۔ اور دوسرا اندازِ سخن زیر ترتیب ہے۔ ہندی میں ایک مجموعہ کلام’ میل کا پتھر 1990 ء میں محکمہ ریل کے تعاون سے شائع ہوا ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اردو کے علاوہ ہندی رسائل میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ ایک نظم’’ جان سے پیارا وطن‘‘بہار ٹکسٹ بک پبلشنگ کارپوریشن سے چھٹے درجے کے لئے شائع شدہ درسی کتاب، نگار ادب‘ میں بہت دنوں تک شریک اشاعت رہی ہے۔ اردو اور ہندی زبان و ادب کی خدمات کے لئے انہیں متعدد انعامات و اعزازات مل چکے ہیں۔ ان میں ۱۹۸۹ء میں انجمن محمدیہ پٹنہ سیٹی سے نعتیہ کلام کے لئے ملنے والا اعزاز ۱۹۹۵ء میں’ پرواز سخن‘‘ کے لئے بہار اردو اکادمی کا انعام ، بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد، سمستی پور کی جانب سے میل کا پتھر دیا گیا۔ ڈاکٹر شیو ساگر مشرا ایوارڈ، ادبی سرکل، پریاس فرید آباد( ہریانہ) کا اعزاز ، عالمی ہندی شتابدی سمیلن نئی دہلی کا ملینیم ایوارڈ اور ۲۰۰۵ء میں ملنے والا کیفی اعظمی ایوارڈ قابل ذکر ہے۔ ان کا یہ امتیاز قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اردو شاعری خصوصاً غزل کو ہندی والوں کے درمیان مقبول بنانے کے لئے منصوبہ بند کوششیں کی ہیں۔
 
 ناشاد کے خیالات سادہ ہیں اور اسلوب رواں۔ غزلوں میں ایک خاص قسم کا حزنیہ آہنگ ابھرتا ہے جسے ذاتی زندگی کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ کلاسیکی اردو شاعری کے مطالعے کا بھی نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے۔ جذبہ و احساس کی صداقت کے ساتھ پیش کش ان کا امتیاز ہے۔ گرچہ اس باب میں وہ کبھی کبھی فنی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر اعتراضات کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ ۲۱ اگست ۲۰۰۰ء کو خواجہ عماد الدین قلندر عمادی پھلواری کے ۲۹۷ ویں عرس کے موقع پر خانقاہ عمادیہ منگل تالاب پٹنہ سیٹی میں منعقد ہونے والے مشاعرے میںجو غزل موصوف نے پیش کی تھی، اس سے ان کے رنگ سخن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے اشعار درج ذیل ہیں۔
 
راز کی بات وہ غیروں کو بتا دیتا ہے
 اس طرح میری محبت کا صلہ دیتا ہے
 مانگنے والے کو ملتا ہے مگر یہ بھی ہے
 جو نہیں مانگتا اس کو بھی خدا دیتا ہے
اس کی مرضی پہ ہے موقوف جسے جو دیدے
کم ہی ہیں جن کو خدا فکر رسا دیتا ہے
 خانوادے کو ترے سچ ہے عمادی بھائی
 دوست تو دوست ہے دشمن بھی دعا دیتا ہے
اب تو ناشاد بھی اے شاد عظیم آبادی
 آپ کے شہر میں اشعار سنا دیتا ہے
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*********************
 
You are Visitor Number : 1651