donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Nasir Zaidi
Poet/Writer
--: Biography of Nasir Zaidi :--

 

 ناصر زیدی 
 
 
سید ناصر حسین زیدی ( قلمی نام: ناصر زیدی) ابن علامہ سید عدیل اختر علی نگر پالی میں ۱۵؍ مئی ۱۹۲۴ء بمطابق ۱۰؍ شوال ا۱۳۴۲ھ پیدا ہوئے۔ تعلیمی سند کے اعتبار سے ان کا سال پیدائش ۱۹۳۱ء ہے۔ بقول جون زیدی ( مرحوم کے بڑے بیٹے) آپ کا سلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں سے ہو کر امام زین العابدین تک پہنچتا ہے۔ مورث اعلیٰ میر محمد باسط بہار شریف کے ایک گائوں مسیاں کے رہنے والے تھے جو پالی میں آکر بس گئے تھے اور جنہوں نے اس بستی میں عزا داری کی بنیاد رکھی۔ ناصر زیدی کا تاریخی نام خورشید حیدر تھا۔ والد نے ان کا نام محمد رکھا تھا مگر نانا مولانا سید نجم الحسن بانی مدرسۃ الواعظین لکھنو نے ادا کی۔ حصول تعلیم کا آغاز جامع العلوم جوادیہ بنارس سے کیا۔ پھر لکھنو یونیورسٹی سے فاضل تفسیر شیعہ و دبیر کامل اور بہار مدرسہ اکزامنیشن بورڈ سے فاضل فارسی، فاضل  تفسیر سنی، فاضل فلسفہ، فاضل فقیہ شیعہ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ سے میٹرک اور عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے ڈپ ان ایڈ کے امتحانات پاس کئے۔ مگر ان تعلیمی اسناد کا کوئی بھی تذکرہ ان کے تبحر علمی کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ آزادانہ مطالعہ اور اپنے عہد کی جید علمی و ادبی شخصیتوں کی ذہنی تربیت کے نتیجے میں وہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ بعض دنیاوی علوم کا ایسا سمندر بن گئے تھے جس کی گہرائی کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا اور یہ دشواری اس لئے بھی تھی کہ عام طور پر نجی گفتگو یا ملاقاتوں کے دوران وہ بے حد انکساری کے ساتھ مخاطب سے اسی کی ذہنی و علمی سطح پر آکر بات کرتے تھے۔ویسے اردو کے علاوہ فارسی اور عربی زبانوں کے ماہر تھے اور انگریزی ہندی اور پشتو کے اچھے واقف کار تھے۔ ان کے مورخین نے ایسے کئی مواقع کا بیان کیا ہے جب انہوں نے عربی یا فارسی زبان میں کسی موضوع پر فی البدیہہ اظہار خیال کرکے لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ پشتو انہوں نے پشاور میں اپنے والدین کے ساتھ قیام ۱۹۲۶ء تا ۱۹۳۹ء کے دوران سیکھی تھی۔
 
ناصر صاحب کے نانیہالی اور دادیہالی بزرگوں میں بیشتر کا پیشہ درس و تدریس تھا۔ ناصر زیدی بھی جنوری ۱۹۵۴ء سے معروف سماجی شخصیت سر سلطان کی ایماء پر تاریخی اہمیت کے حامل تعلیمی ادارہ محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول پٹنہ سیٹی میں اردو اور فارسی کے استاذ مقرر ہو گئے۔ ۳۱ مئی ۱۹۸۹ء کو یہیں سے بحیثیت پرنسپل ریٹائر ہوئے۔ کم و بیش بارہ برسوں تک بنارس لکھنو اور پٹنہ میں مختلف علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہ کر تصنیف و تالیف کے کام میں لگے رہے۔ کئی طرح کی بیماریوں میں بھی بہت دنوں سے مبتلا تھے۔ بالآخر ۲۰۰۳ء کے اوائل میں پیٹ کے شدید درد کا شکار ہوئے۔ علاج کے لئے چھوٹے صاحبزادے مولانا میثم زیدی کے ساتھ لکھنو گئے مگر حالات بگڑتے ہی گئے۔ ڈاکٹروں نے پہلے یرقان اور پھر کینسر بتایا۔ ۲۱ اکتوبر کی درمیانی شب میں انتہائی نگہداشت کے کمرے ICU میں داخل کئے گئے جہاں ۳ نومبر کی شام ۴ٖ؍ بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ امام باڑہ غفرانمآب میں اپنے والد علامہ عدیل اختر کے جوار میں مدفون ہوئے۔ پیام اعظمی کا قطعہ تاریخ درج ذیل ہے۔
 
ناصر زیدی جس کو کہتے تھے سب
 بجھ گیا وہ چراغ علم و ادب
 عہد تہذیب کا نمئندہ 
ذات تھی جس کی شمع آخر شب
جس کے دل میں جگہ بنا نہ سکی
 حسرتِ جاہ و خواہش منصب
 آبروئے علی، نگر پالی
 تھا وقار بہار کا جو سبب
ہے جوار عدیل اختر میں
اخترِ بے عدیل کا کوکب
 پئے تاریخ موت کہہ دو پیام
 ہو بہشت بریں میں ناصر اب
 
ناصر زیدی کی ادبی کاوشیںمختلف الجہات رہی ہیں۔ انہوں نے نثر نگاری بھی کی ہے اور شاعری بھی اور دونوں ہی میں کسی خاص صنف تک محدود نہیں رہے ہیں۔ کچھ کتابیں وقتی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ترتیب دی گئی ہیں اور کچھ ترتیب دے کر دوسرے کے حوالے کردی گئی ہیں۔ غرض یہ کہ ایک طرفہ تماشا ہے… کے مصداق ہر طرح کی تخلیقات ان کے سرمایہ ادب کا حصہ ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے ان کی قادر الکلامی کا ثبوت قرار دیں۔ مگر میں برابر اسے ایک المیہ ہی تصور کرتا رہا ہوں کہ ان کی تمام صلاحیتیں کسی ایک مرکز پر جمع نہ ہو سکیں۔ بہر حال ان کی تمام کاوشوں کو درج ذیل نکات کے تحت سمیٹا جا سکتا ہے۔
 
(۱) ان کی دو کتابیں مطبوعہ ہیں۔ ایک ’’ عطرِ گل‘‘ ۱۹۹۸ء جس کے کچھ اابواب بقول احمد یوسف Memorirs کے زمرے میں آتے ہیں اورکچھ خاکہ نگاری کا نمونہ ہیں۔ دوسری ’’ شمامہ‘‘ ہے۔ جس میں شگفتہ اسلوب میں لکھے گئے چھبیس انشائیہ مضامین ہیں۔
 
 (۲)انہوں نے علمی و ادبی مذہبی ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر کئی درجن مضامین لکھے جو ہندو پاک کے اہم رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لئے فرمائشی مضامین بھی اپنے خاص انداز میں تحریر کئے۔
 
(۳) اردو، فارسی اور عربی کی کم و بیش ایک درجن درسی کتابوں کی شرح لکھی۔ بعض داخل نصاب کتابیں مقدمے یا تعارف کے ساتھ شائع کیں۔
 
 (۴) پندرہ روزہ’’ النجف‘‘ نکالا۔ ۱۹۴۷ء میں بنارس سے ہفتہ وار ’’ جنتا‘‘ شائع کیا۔ بچوں کے لئے شگوفہ ۱۹۵۹ء اور اردو اور ۱۹۸۱ء کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۹ء میں نیم ادبی و نیم مہبی پندرہ روزہ’ ’ الناصر ‘‘ شائع کیا اور ۱۹۹۳ء سے الجواد ( بنارس) کی ادارت کے فرائض انجام دئیے۔ محمڈن اینگلو عربک اسکول کے میگزین کی داغ بیل رکھی اور ہفتہ وار ’’ مگدھ پنچ‘‘ کی اشاعت کے محرک رہے۔ اس میں ان کی نثری تحریروں کے علاوہ کلام بھی بے تک انڈیا وی کے نام سے شائع ہوا۔
 
(۵)۱۹۶۰ء کے آس پاس ان کی شعری تخلیقات رسالوں میں شائع ہونے لگی تھیں۔ انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف پہ طبع آزمائی کی ، غزلیں، کہیں قصیدہ اور سلام لکھا، مزاحیہ اور سنجیدہ ، آزاد اور پابند نظمیں کہیں اور اساتذہ کی بے مثال پیروڈیاں پیش کیں۔
 
(۶) انہوں نے اردو زبان کی درس و تدریس کے حوالے سے غیر معمولی کام کیا۔ اپنے شاگردوں میں نہ صرف علم و ادب کا ذوق پیدا کیا بلکہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز رہ کر ان کی ذہنی تربیت میں اس طرح حصہ لیا کہ ان میں سے کئی خود مشہور و معروف ادبی شخصیت بن گئے۔
 
مجھے احساس ہے کہ یہ نکات بھی پوری طرح ان کی علمی و ادبی خدمات کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے قلم کی روانی اور فکر کی جولانی نے انہیں مختلف سمتوں میں محو سفر رکھا۔ البتہ اپنی مٹی، تہذیب اور زبان سے شدید وابستگی، لب و لہجے کی شگفتگی خوش طبعی اور مطالعے کی وسعت اور گہرائی ان کی شخصیت کے ساتھ ساتھ تحریروں میں بھی نمایاں ہے۔ان کی وفات کے بعد شائع شدہ’’ الناصر‘‘ کے خصوصی شمارہ جنوری 2005 ء میں ان کی تمامتر نگارشات اور ڈائری کے اوراق کو منظر عام پر لانے کا اعلان موجود ہے۔خدا کرے یہ اعلان جلد عملی جامہ پہن سکے۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*****************
 
You are Visitor Number : 1927