donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Qayamuddin Ahmad
Writer
--: Biography of Qayamuddin Ahmad :--

 

 قیام الدین احمد 
 
 
قیام الدین احمد ولد علیم الدین احمد نے ۹؍ ستمبر کو پٹنہ سیٹی کے ایک متوسط مگر ذی علم گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ وہ سات بھائی اور بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہیں سے مشہور تاریخ داں اور مورخ ڈاکٹر کے دتا کی نگرانی میں وہابی تحریک پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کیا اور ۱۹۵۲ء میں بہار ایجو کیشن سروس جوائن کرنے کے بعد کے پی جیسوال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بحیثیت ریسرچ فیلو کام کرنے لگے۔ اسی سال دسمبر میں اپنی پھوپھی زاد بہن سعیدہ سے ان کی شادی ہوئی جن کی اکلوتی اولاد امتیاز ہیں۔ جو فی الحال خدا بخش لائبریری کے ڈائریکٹر ہیں۔ ۱۹۶۴ء میں ان کی خدمات پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کو منتقل کر دی گئیں جہاں وہ اگست ۱۹۹۲ء تک کام کرتے رہے۔ ایک مشفق استاد اور سنجیدہ محقق کی حیثیت سے وہ اپنے شاگردوں اور حلقہ احباب میں خاصے مقبول رہے۔ اپنی گرتی ہوئے صحت کے باوجود ریٹائر منٹ کے بعد وہ آخری دم تک تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول رہے۔ گرچہ انہوں نے سفر کرنا کم کر دیا مگر اپنے ذوق کے مطابق منتخب سمیناروں اور جلسوں میں شریک ہوتے رہے۔ ایسے ہی ایک سمینار میں ( جو خدا بخش لائبریری اور جامعہ ہمدرد کے اشتراک سے دہلی میں منعقد ہونے والا تھا) شرکت کے لئے اپنا مقالہ ٹائپ کرتے ہوئے ۲۷؍ اگست ۱۹۹۸ء بمطابق ۴ظ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۹ھ کو دل کا جان لیوا دورہ پڑا۔ ۲۹ اگست ۱۹۹۸ء کو اپنے آبائی قبرستان واقع میر شکار ٹولی ( جامع مسجد سے متصل) میں مدفون ہوئے۔
 
پروفیسر یوسف خورشیدی نے سال تاریخ اس طرح نکالا۔
 اگر ، آہ نکلے تو یوسف کہو
 مورخ، محقق، معلم، قیام
۶-۱۴۲۵=۱۴۱۹ھ
 
پروفیسر قیام الدین احمد ایک منکسرالمزاج مگر با اصول انسان تھے۔ قناعت پسندی اور خود داری ان کی شخصیت کے ایسے اجزا تھے جن کا اظہار اکثر مواقع پر ہوتا رہا ہے۔ وہ انڈین کائونسل برائے ہسٹوریکل ریسرچ، نیشنل بک ٹرسٹ ، ساہتیہ اکادمی، پبلی کیشنزڈویزن، حکومت ہند اور ترقی اردو بیورو کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ اورینٹل کالج پٹنہ کے سکریٹری رہے اور دوسرے کئی اداروں سے ان کی وابستگی رہی۔ مگر انہوں نے کبھی کسی منصب کو ذاتی فائدوں کے لئے استعمال نہیں کیا۔ دراصل وہ سید حسن عسکری کے نہ صرف شاگرد تھے بلکہ مقلد بھی تھے۔ اور عسکری صاحب کی درویشانہ بے نیازی ایک حد تک ان کے مزاج کا بھی حصہ بن گئی تھی۔ وہ مذہبی عقائد میں بھی سخت گیر کی جگہ رواداری کے قائل تھے۔ یہاں تک ۱۹۸۵ء میں اسلام اور عیسائیت کے ممکنہ رابطوں کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے روم بھی گئے تھے۔
 
 پروفیسر قیام الدین کا اصل میدان تاریخ ہے اور ان کی شاہ کار تصنیف Wahabi Movement in India (P-1966) پہلے انگریزی میں ہی شائع ہوئی ہے مگر نہ صرف یہ کہ ان کا پہلا تحقیقی مقالہ’’ ۱۹۳۹ کی عدالتی زبان‘‘ اردو کے عہد ساز رسالہ ’’ معاصر‘‘ دسمبر ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا تھا بلکہ ان کے کم از کم ایک درجن مزید مقالے اردو میں شائع ہوئے جن میں سے بعض مستقل کتابوں پہ بھاری ہیں۔ ان کا آخری مطبوعہ بھی ان کی وفات سے کچھ دنوں قبل اردو ہی میں شائع ہوا۔ اس کا موضوع ’’ علمائے صادق پور اور وہابی تحریک میں ان کا حصہ تھا‘‘۔
 اردو میں ان کی درج ذیل کتابیں موجود ہیں:
 
۱۔ (Comprehensive History of India (Habib & Nezami کی پانچویں جلد کا اردو ترجمہ بہ نام’’ دہلی سلطنت ’’ مطبوعہ ۱۹۸۴ء ۔
 ۲۔some thoughts on Agrarian relations in mughal India (Nurul Hasan)
۳۔ صدائے باز گشت( ریڈیو سے نشر شدہ مضامین کا مجموعہ ) مطبوعہ ۱۹۸۵ء
 
۴۔ ہندستان میں وہابی تحریک( ترجمہ از مسلم عظیم آبادی)مطبوعہ کراچی ۱۹۷۱ء اردو ترجمہ ۱۹۷۶ء موضوعات کو بھی خاصے سہل اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ خاص طور پر وہابی تحریک اور اس تحریک سے وابستہ شخصیات سے متعلق ان کی تحریریں آج بھی بر صغیر ہندو پاس میں اپنے موضوع پر حرف آخری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو زبان کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے میدان کے شہہ سوار ہیں جہاں ان کے مد مقابل بہت کم لوگ ہیں۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*****************************
 
You are Visitor Number : 1611