donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Rahmat Ali Barq Azmi
Poet
--: Biography of Rahmat Ali Barq Azmi :--

 

Rahmat Ilahii Barqi Azmi was a poet of caliber in his time and used to pen ghazals in his own style, that was a source of inspiration for others. He was born September 1, 1911 in a noble family at Azamgarh (UP-India). He started penning poetry since early adulthood. In the beginning he consulted Salig Ram Salig, who was a disciple of Shamshad Lakhnavi and later Nooh Narvi, who was a disciple of Daagh Dehlavi. Thus, Barq Azmi acquired best of both Lucknow and Delhi schools of Urdu poetry. He died on October 2, 1983 and laid to rest on October 3, 1983. The collection of Barq’s poetry titled Tanveer-e-Sukhan was published after his death by his sons including the illustrious poet Dr Ahmad Ali Barqi Azmi.

 

 رحمت الٰہی برق اعظمی 
 
رحمت الٰہی برق اعظمی۱۹۱۱۔۱۹۸۳
رحمت الٰہی برق اعظمی جنھیں جانشین داغ دہلوی حضرت نوح ناروی سے شرف تلمذ حاصل تھا دیارِ شبلی شہر اعظم گڈھ کے ایک صاحبِ طرز اور باکمال استادِ سخن تھے  جو اپنی خوئے بے نیازی ،خاکساری اور زمانے کی نا قدر شناسی کی وجہ سے گوشہ گمنامی سے باہر نہیں آسکے جیسا کہ ان کے اس شعر سے
 
ظاہر ہے۔
 
نا آشنائے حال ہے بیچارہ کیا لکھے
ساکت قلم ہے میرے سوانح نگار کا
ان کی خوئے بے نیازی کا یہ عالم تھا  کہ وہ فرماتے ہیں کہ 
زحمت مشاعروں کی اٹھائے مری بلا
وہ دے رہے ہیں داد غزل کہہ رہا ہوں میں
 
روحِ عروض جھوم رہی ہے بصد خوشی
فن کر رہا ہے صاد غزل کہہ رہا ہوں میں
 
برق اعظمی کی شاعری ان کے فطری شعری و ادبی ذوق اور ذہنی و فکری آسودگی کا ذریعہ تھی جس کا وسیلۂ اظہار مقامی شعرو سخن کی محفلیں تھیں جن میں انھوں نے مختلف اسنافِ سخن میں اپنی استادانہ مہارتِ زبان و بیان کے جوہر دکھائے ہیں اور ان کی شاعرانہ عظمت صرف فصیلِ شہر تک محدود رہی۔ زبان و بیان پر غیر معمولی تبحر اور قادرالکلامی کی وجہ سے ان کا اشہبِ قلم ہر میدان مین یکساں  جولانیاں دکھاتا ہے  لیکن ان کا جوہرِ امتیازی غزل اور قصیدے میں زیادہ  نمایاں ہے۔ان کی غزلیں قدیم و جدید اسالیبِ سخن  کا ایک خوشنما مرقع ہیں جن میں لطفِ زبان اور حسنِ بیان کے ساتھ ساتھ  بلند پروازیٔ خیال ،جدتِ ادا،تشبیہاتِ جدید ، استعارات لطیف ،دروں بینی،وسعتِ نظر  اور دقتِ فکر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔انھوں نے طرزِ ادا میں بہت سی جدتیں کیں  اور بیان کے نئے نئے اسلوب پیدا کئے  اور ہر حال میں اپنی  انفرادیت کو برقرار رکھا۔ وہ ایک معمولی سی بات کو لیتے ہیں  اور اپنی مخصوص طرزِ ادا سے  اس ندرت  پیدا کردیتے ہیں۔۔ ان کی غزلوں میں عشق و ذوق،شور و شوق ،نکتہ پردازی ،مضمون آفرینی،سلاست و شیرینی،واردات و واقعات،سوز و گداز اور درد و تاثیر کی فرا وانی ہے۔
 
اس نابغۂ روزگار استادِ سخن کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
 
قبلِ تحریر سرِ کامہ قلم ہوتا ہے
تب کہیں عشق کا افسانہ رقم ہوتا ہے
 
ہے ماوارائے سخن برق گفتگو میری
خموش  رہ کے بھی اکثر ہے بات کی میں نے
 
بے نتیجہ ہیں کتابوں کی ورق گردانیاں
ماجرائے عشق لفظوں میں بیاں ہوتا نہیں
 
آتشِ سیال کی صورت ہے رگ رگ میں لہو
جل رہا ہوں سر سے پا تک اور دھواں ہوتا نہیں
 
کشتیٔ دل رکے جہاں ہے وہی ساحلِ سکون
منزل عمر ہے وہی نبض جہاں ٹھہر گئی
 
اف یہ کرشمہ سازیاں گردشِ روزگار کی
فصلِ بہار آئی جب قوتِ بال و پِر گئی
 
محبت میں محسوس ہوتا ہے ایسا 
مرے دل کو جیسے کوئی مجھ کو چھینے
 
نئی افتاد پڑتی ہے ہمیشہ
نیا دل روز لاؤں میں کہاں سے
 
 
نازشِ سالکؔ وسہیلؔ پیروِ نوحؔ ناروی
 
شاعر سہل ممتنع حضرتِ برقؔ اعظمی
 
سرزمین کہن ہے اعظم گڑھ
کان ِ شعر وسخن ہے اعظم گڑھ
اہلِ فضل وکمال سے سرشار
مخزن علم وفن ہے اعظم گڑح
کیوں نہ مجھ کو عزیز ہو یہ شہر
برقؔ میرا وطن ہے اعظم گڑھ
 
یوں تو سر زمین اعظم گڑھ کو جو صدیوں سے علم وفضل کا گہوارہ رہی ہے جلیل القدر علمائ وفضلا اور مشاہیر شعر و ادب کی زادگاہِ علمی ہونے کا شرف حاصل رہاہے۔ جہاں سے اٹھنے والا ہر ذرہ بقول علامہ اقبال سہیلؔ نیرا عظم بن کر سپہر علم ودانش پر ضوفگن ہوتا رہاہے جس کے فیضان تجلی سے جہانِ شعر وادب آج تک منور ہے ،لیکن اس تجلی گاہ علوم ومعارف میں کچھ باکمال اور یگائنہ روز گار شخصیتیں ایسی بھی گزری ہیںجنہیں خاطر خواہ آسمان شعر وادب پر چمکنے کا موقع نہیں مل سکا اور انہیں اپنی منکسر المز اجی نامساعد حالات اور ذاتی واداری مصروفیات کی وجہ سے وہ شہرت نصیب نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے۔ والد محترم جناب رحمت الہیٰ برقؔ صدیقی اعظمی ابن عالیجناب منشی رحمت اللہ مرحوم۱۹۱۱ء ۱۹۸۳ء بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھے جو اپنی خاکساری، بے نیازی عزلت نشینی اور زمانے کی ناقدر شناسی کی وجہ سے گوشہ گمنامی سے باہر نہیں آسکے جیسا کہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہے۔
ناآشنائے حال ہے بیچارہ کیا لکھے
ساکت قلم ہے میرے سوانح نگار کا
آپ ضلع کی مختلف تحصیلوں میں نائب رجسٹرار قانون گوکی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے۔ چونکہ سن شعور سے ہی شعر وسخن سے فطری مناسب تھی اس وجہ سے اداری مصروفیات کے باوجود بھی مقامی طرحی ادبی نشستوں اورقصیدہ خوانی کی محفلوں میں برابر شریک ہوتے رہے اور مشق سخن جاری رکھی ۔ایک نعتیہ قصیدے کی تشبیب میں اپنی اداری مصروفیات کو موضوع سخن بناتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔
قصیدہ کیا لکھوں اب بات کا کرنا بھی مشکل ہے
کسی لمحہ نہیں فرصت یہ افراط مشاغل ہے
کیا بزم سخن سے دور افکار معیشت نے
نہ وہ جوش طبیعت ہے نہ وہ میں ہوں نہ وہ دل ہے
یہی ہر وقت کی الجھن یہی ہر روز کا جھگڑا
کہ دعویٰ کوئی فیصل کوئی خارج کوئی داخل ہے
اسی میں فکر لاحق تیسری شعباںقریب آئی
اسی میں ذکر معراج النبیؐ کی آج محفل ہے
ارے تو بہ ہے ایسی کشمکش میں جان زار اپنی
کہ کچھ کہنا بھی مشکل ہے نہ کچھ کہنا بھی مشکل ہے
کدھر ہے ساقی مہوش صراحی لے کے آجائے
طبیعت خستہ ودرماندہ افسردہ مرا دل ہے
شاید اسی خستگی ودر ماندگی اور ایک غیر شاعرانہ پیشے سے وابستگی نے انہیں صرف مقامی ادبی نشستوں تک محدود رکھا اوریہ کہنے پر مجبور کیا کہ:
زحمت مشاعروں کی اٹھائے مری بلا
وہ دے رہے ہیں داد غزل کہہ رہا ہوں میں
روح عروض جھوم رہی ہے بصد خوشی
فن کررہاہے صاد غزل کہہ رہا ہوں میں
الغرض برقؔ اعظمی کی شاعری ان کے فطری شعری وادبی ذوق اور ذہنی وفکری آسودگی کا ذریعہ تھی جس کا وسیلہ اظہار مقامی شعر وسخن کی محفلیں تھیں جن میں انہوں نے مختلف اصناف سخن میں اپنی استادانہ مہارت زبان وبیان کے جوہر دکھائے اور صرف مقامی عظمت کے حامل رہے۔
زبان وبیان پر غیر معمولی تجر اور قادر الکلامی کی وجہ سے ان کا اشہبِ قلم ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا ہے لیکن ان کا جو ہر امتیازی غزل اور قصیدے میں زیادہ نمایاں ہے۔ ان کی غزلیں قدیم وجدید اسالیب سخن کا ایک خوشنما مرقع ہیں جن میں لطف زبان اور حسن بیان کے ساتھ بلند پرورازئ خیال، جدت ادا، تشبیہات جدید،استعارات لطیف، دروں بینی، وسعت نظر اور دقت فکر بدرجۂ اتم موجودہیں۔انہوں نے طرزِ ادا میں بہت سی جدتیں کیں اور بیان کے نئے نئے اسلوب پیدا کیے اور ہرحال میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا وہ ایک معمولی سی بات کو لیتے ہیں اور اپنی مخصوص طرزِ ادا سے اس میں ندرت پیدا کردیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں عشق وذوق شور وشوق‘ نکتہ پردازی ،مضمون آفرینی، سلاست و شیرینی وارادت وواقعات، سوزوگداز اور درد وتاثیر کی فراوانی ہے۔
پہلے اپنے اسلوب بیان اور شعری محاسن کے سلسلے میں ان کی ذاتی رائے ملاحظہ فرمائیں بعد ازآں ہم یہ جائز ہ لیں گے کہ آخر وہ اس معیار پر کہاں تک پورے کرتے ہیں۔
کلام برقؔ کے ادبی محاسن
پرکھ لو خوبی حسن بیاں سے
تعال اللہ یہ رنگ تغزل 
لطافت ہے ادب ہے، سادگی ہے
فکر جمیل برقؔ کا عالم نہ پوچھیے
بزم ادب کی شان بڑھاتی چلی گئی
ادیبوں کا کا مقولہ ہے کلام برقؔ کی بابت
سنے جو گوش دل سے محرم اسرار ہوجائے
مشاعرے سے اٹھے جب تو اہل فن نے کہا
کہ برقؔ زلفِ عروس ادب سنوار چلے
ان اشعار کی روشنی میں اگر ہم برقؔ اعظمی کے شعری محاسن کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ صرف شاعرانہ تعلی نہیں ہے بلکہ فی الواقع ان کی شاعری جدت طرازی، کیف وسرمستی، سلامت و روانی سوز وگداز، بلندی پروازئ خیال وسحر انگیزی کا ایک خوشنما مرقع ہے جو نہ صرف قاری کے لذت کام ودہن اور ذوق جمال کی تسکین کے اسباب فراہم کرتی ہے بلکہ اسے دعوت فکر وعمل بھی دیتی ہے اس لحاظ سے ان کی شاعری صرف حدیث دلبری ہی نہیں بلکہ تفسیر کائنات بھی ہے۔ چند شعر ملا حظہ ہوں۔
قبل تحریر سرِ خامہ قلم ہوتاہے
تب کہیں عشق کا افسانہ رقم ہوتاہے
ہے ماورائے سخن برقؔ گفتگو میری 
خموش رہ کے بھی اکثر ہے بات کی میں نے
بے نتیجہ ہیں کتابوں کی ورق گردانیاں 
ماجرائے عشق لفظوں میں بیاں ہوتا نہیں
آتش سیال کی صورت ہے رگ رگ میں لہو
جل رہاہوں سر سے پاتک اور دھواں ہوتانہیں
کشتیٔ دل رکے جہاں ہے وہی ساحل سکوں
منزل عمر ہے وہی نبض جہان ٹھہر گئی
اف یہ کرشمہ سازیاں گردشِ روزگار کی
فصلِ بہار آئی جب قوت بال وپر گئی
محبت میں محسوس ہوتاہے ایسا 
مرے دل کو جیسے کوئی مجھ سے چھینے
نئی افتاد پڑتی ہے ہمیشہ
نیا دل روز لائوں میں کہاں سے
دل لگانا بُرا ہے یہ مانا 
دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
اگر چہ ان کا دائرہ فکر وعمل ایک نہایت پسماندہ اور دور افتادہ شہر تک محدود رہا لیکن ان کی بلند پروازئ خیا ملاحظہ ہو۔
اب وہ دن دور نہیں فیض سے سائنس کے جب
نقشہ نامہ و پیغام بدلنا ہوگا
جدت فن کا تقاضا ہے کہ اس دور میں اب
جو طریقہ ہے بہت عام بدلنا ہوگا
مذکورہ بالا شعر جو ۷؍ستمبر۷۴۹۱ء کو معرض وجود میں آیا تھا شاعر کی اولوالعزمی، وسعت فکر و نظرجدت پسندی اور دور اندیشی کا مظہر ہے۔ اس غزل کے چند شعر اور ملاحظہ ہوں جو اس حقیقت امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شاعر کی ذہنی سطح، علمی بصیرت اور دقت نظر عام لوگوں سے بالا تر ہوتی ہے۔ وہ اپنے گرد وپیش کے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اپنی شعری تخلیقات میں نہ صرف حقیقت حال کی ترجمانی کرتاہے بلکہ مستقبل کا بھی نقیب ہوتاہے۔
شیوۂ طعنہ و الزام بدلنا ہوگا
یہ طریقہ بتِ خود کام بدلنا ہوگا
تو نے اپنوں ہی میں اب تک جو چلا رکھا ہے
اب وہ دور مئے گلفام بدلنا ہوگا
آج تووضع بدلنے کیلئے کہتے ہو
کل کہو گے کہ تمہیں نام بدلنا ہوگا
حضرت برقؔ اعظمی ایک حساس اور بیدار مغزانسان تھے۔ وہ ماضی کی صالح قدروں کے امین، حالات حاضرہ کے نباض اور ایک خوش آئندہ مستقبل کے نقیب تھے۔ ان کے اشعار میں ماضی کی صالح روایات، عصری آگہی اور ایک تابناک مستقبل کے امکانات جلوہ گر ہیں جو ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
دیکھتا ہوں زمانے کی رفتار کو
نبض گیتی پہ رکھے ہوئے انگلیاں
تو جو مایوس ناکامیوں سے نہ ہو
کامیابی کی ضامن ہیں ناکامیاں
ثبت ہے صفحہ صفحہ پہ تاریخ کے
مٹنے والی نہیں ہے مری داستاں
اب بھی ساتھ آجو ہو شوق منزل رسی
گو ہوں اب میں غبارِ پسِ کارواں
ان اشعار میں عصری حسیت اور اجتماعی شعور کس حد تک نمایاں ہے اہل نظر اس کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
برقؔ اعظمی کی غزلوں میں مکالماتی اندازبیان کی فراوانی ہے۔ اس طرزِ بیان سے بعض اوقات قاری وسامع پر ایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور شاعر کی داخلی کیفیت سامع پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ کچھ دیر کیلئے تصورات کی دنیا میں کھو جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شاعر کی نہیں بلکہ خود اس کے دل کی آواز ہے ملاحظہ ہو شعر:
رکو رکو ابھی جلدی ہے کون جانے کی
سنو سنو مرے دردِ فراق کی روداد
رکو رکو اور سنو سنو کے برمحل اور بے ساختہ استعمال سے نہ صرف یہ کہ شعر میں ایک زبردست تاثر پیدا ہوجاتا ہے بلکہ یہ شاعر کی زبان وبیان پر غیر معمولی گرفت کا مظہر ہے۔ ایک اور شعر میں برجستگی زبان و بیان اور وارفنگی شوق ملاحظہ ہو:
کسی کی یاد میں رہتے ہیں فاغل 
بسا اوقات ہم دونوں جہاں سے
یہاں لفظ بسا اوقات کا استعمال بھی شاعر کے تجر زبان وبیان کا آئینہ دار ہے۔
شاعرا پنے داخلی تجر بات کو اس موثر انداز سے بیان کرتا ہے کہ آپ بیتی، جگ بیتی معلوم ہونے لگتی ہےملاحظہ ہو:
سکتے کا سا عالم دمِ گفتار ہوا ہے
ایسا بھی محبت میں کئی بار ہوا ہے
ان کی تصویر تصور سے مری سر گوشی
 کتنا پرکیف سماں تھا شبِ تنہائی کا
عجیب حال ترے عشق میں ہمارا ہے
فغاں کی تاب نہ تو ضبط ہی کا یارا ہے
قضا کا نام ہے بدنام مفت میں ورنہ
مجھے تو برقؔ غم زندگی نے مارا ہے
ان اشعار میں شاعر نے غم جاناں کو غم داروں بنادیا ہے اور یہ اشعار انسانی نفسیات سے اس قدر قریب تر ہیں کہ دل کو چھولیتے ہیں۔
برقؔ اعظمی نے ذہنی وفکری نا آسودگی اور حصول مال ومتاعِ دنیوی کیلئے مسلسل تک ودو کو بھی موضوع سخن بنایاہے جو شاعر کی عصری آگہی اور اجتماعی شعور کا ترجمان ہے۔ فرماتے ہیں:
کوئی نہیںہے سیر گدا ہو کہ تاجور
بھو کا ہے یہ غذا کا تو وہ اقتدار کا
برقؔ اعظمی نے شروع شروع میںجناب منشی سالگ رام صاحب سالک گرواری کے جانشین حضرت شمشاد لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ۱۹۳۴ء میں ان کے انتقال کے بعد تاج الشعراء فصیح العصر ناخدا ئے سخن حضرت نوح ناروی جانشین حضرت داغ دہلوی سے مشورۂ سخن لینا شروع کیا جس کا اثر ان کے کلام میں صاف نمایاں ہے۔
برقؔ اعظمی کی غزلوں میں حضرت نوحؔ ناروی کے فیض صحبت کے اثر سے سلاست وشیرینی ،برجستگی، پرکاری وسحر آفرینی بدرجہ اتم موجود ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات داغ دہلوی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر اشعار سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہیں۔غزل کے لغوی معنی معشوق سے گفتگو کو محلوظ رکھتے ہوئے صنعت مراجعہ میں لکھی ہوئی ایک غزل کے چند شعر ملا حظہ ہوں:
میں نے کہاکہ آپ ہیں؟ اس نے کہاکہ جی نہیں
میں نے کہا تو کون ہے؟ اس نے کہاکوئی نہیں
میں نے کہا کہ آپ تو میری نظر میں شمع ہیں
اس نے کہاکہ کچھ بھی ہیں آپ سے لو لگی نہیں
میں نے کہاکہ آپ کے حسن پہ مررہا ہوں میں
اس نے کہاکہ آپ کیا اس سے کوئی بری نہیں
میں نے کہاکہ بوالہوس بیٹھ کے رو رہا تھا کل
اس نے کہاکہ اس سے کہہ عشق ہے دل لگی نہیں
میں نے کہاکہ برقؔ کی لکھی ہوئی ہے یہ غزل
اس نے کہاکہ جھبی تو یہ سحر ہے شاعری نہیں
یہ سحر آفرینی صرف اسی غزل تک محدود نہیں ہے بلکہ حضرت برقؔ اعظمی نے سہل ممتنع کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف اپنی قادر الکلامی اور استادانہ مہارت زبان وبیان کے جوہر دکھائے ہیں بلکہ اردو غزل کو اپنی جدت طبع اور ہنر آفیرنی سے ایک نئے رنگ وآہنگ سے روشناس کرایا ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
زندگی کا عجب فسانہ ہے
روتے آنا رلا کے جانا ہے
جہاں میں آئے تو روتے ہوئے خود آئے تھے
چلے تو کرکے عزیزوں کو اشکبار چلے
رکے تو بیٹھ گئے بیٹھتا ہے دل جیسے
چلے تو نبض کی صورت سے بے قرار چلے
نبھا سکے جو نہ بزم الست کا وعدہ 
کفن سے ڈھانکے ہوئے منھ کو شرمسار چلے
آج آئے ہو تم اے جان تسلی دینے
مرگئے ہوتے جو کل ہجر میں ہم کیا ہوتا
پوچھا جو کس کا باغ میں روندا گیا ہے سر
سبز ے نے عاجزی سے کہا خاکسار کا
اف دریائے عشق کا پاٹ
ہے ملاح نہ نائو نہ گھاٹ
عشق کا لپکا آگ ہے آگ
جان کے لوبھی چل، ہٹ بھاگ
 ہر دم ان کے نام کی جاپ
لب پہ ہے جاری آپ سے آپ
سہہ نہ سکے گا عشق کی آنچ
دیوانے یہ آگ نہ تاپ
حسن میں ہیں جو وہ یگانہ وہ طاق
عشق میں ہم ہیں شہرۂ آفاق
کوہ کن نے پہاڑ تو کاٹا
اور کاٹے کٹی نہ شام فراق
دنیا بھر سے ناتاتوڑ 
رشتہ بس اللہ سے جوڑ
مار سکے تو نفس کو مار
چھوڑ سکے تو حرص کو چھوڑ
کھا مظلوم کی آہ سے خوف
ظالم کا دے ہاتھ مروڑ
اہل وفا کے پائوں کو چوم
اہل جفا سے ہاتھ نہ جوڑ
خود بھی سنبھل اوروں کو سنبھال
برقؔ کی باتوں کا ہے نچوڑ
خود سنبھلنے اور دوسروں کو سنبھالنے کی تلقین شاعر کی درد مندی اور انسان دوستی کا مظہر ہے جیسا کہ ان اشعار سے ظاہر ہے۔
دیکھا کسی کو رنج والم میں جو مبتلا
ہم بھی شریک اس میں برابر کے ہوگئے
جس دل میں یہ نہیں ہے وہ پتھر ہے دل نہیں
اپنا ہے یہ خیال محبت کے باب میں
یہ نہ ہوتو دنیا میںکون کس کو پہچانے
اصل میں محبت ہی شمع بزم ہستی ہے
محبت کیا بتائوں تجھ کو میں کیا چیز ہے ہمدم
یہ عنوان کتاب زندگی معلوم ہوتی ہے
محبت کے روایتی تصور سے قطع نظر معاشرے میں صحت مند اور صالح قدروں کے فروغ کی کوشش اور بنی نوع انسان کو باہمی اتحاد واتفاق کی تلقین برق اعظمی کے جذبہ ہمدردئ خلائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ فرماتے ہیں:
مل جل کر دنیا میں گزار
دو دن کا ہے میل ملاپ
آشوب روزگار اور معاشرتی زندگی کے تلخ حقائق کو کس خوبصورتی اور نہایت سادہ اور سلیس زبان میں پیش کیا ہے۔
سیکڑوں مصائب ہیں سیکڑوں حوادث ہیں 
رہزنوں کے نرغے میں کاروانِ ہستی ہے
زندگی اب تو ہوگئی دوبھر
یورشِ حادثات اتنی ہے
دنیا میں رہ کے خواہش آرام ہمنفس
ایسی ہے جیسے آب کی خواہش سراب میں
حضرت برقؔ اعظمی کے خیال میں شعراایسا ہونا چاہیے جو ذوق جمال کی تسکین کے ساتھ ساتھ بے قرار انسانیت کو روحانی غذا فراہم کرسکے چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
ایسے ادیب اب کہاں بزم ادب میں ہمنشیں
روح کی مل سکے غذا جن کی نگار شات میں
عقل سلیم سے سمجھ میرا کلام ہمنشیں
رمز ہے لفظ لفظ میں بات ہے بات بات میں
اور ان کایہ شعر خودان کی ذات پر صادق آتاہے:
اہل کمال خاک ہوں اپنے وطن میں سرخرو
قدرِ جواہرات کیا کانِ جواہرات میں
برقؔ اعظمی کا استادانہ رنگ ان کے قصائد میں بہت ابھر کر سامنے آیا ہے اس شعری مجموعے میں ۲۱ قصدے شامل ہیں جو حضور اکرمﷺ اور ائمہ معصومین کی شان میں ہیں جو ان کے جوش عقیدت اور فن عروض پر ان کی غیر معمولی دسترس کا مظہر ہیں۔ انہوں نے قصیدے کے تمام اجزائے ترکیبی کو ملحوظ رکھتے ہوئے تشبیب گریز اور مدح سرائی میں اپنی استادانہ مہارت زبان وبیان کے خوب جوہر دکھائے ہیں جس کی وجہ سے ان کے قصائد بھی سلاست وروانی پر کاری اور فنکارانہ چابکدستی کا بہترین نمونہ ہیں۔
ان سطور میں میری یہ حق فرزندی ادا کرنے کی ایک ادنی کوشش ہے۔ شاعر کی شاعرانہ عظمت کا تعین توارباب نظرہی کرسکتے ہیں لیکن مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ بقول حضرت جگر مرادآبادی:
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی
قصائد کے علاوہ حضرت برقؔ اعظمی نے حمد نعت منقبت خمسے، تضمینیں قطعات رباعیاں اور قطعات تاریخ وغیرہ میں بھی اپنے قلم اعجاز رقم سے بہت سے گل بوٹے کھلائے ہیں مولانا رومؒ مرزا غالب اور علامہ اقبال کے اشعار پر ان کے عالم خیال میں منظوم مکالمے جن کا مقصد سوال وجواب کی صورت میں ان عظیم شاعروں کے اشعار کی تشریح ہے، ان کا ایک قابل قدر اور مثالی کا رنامہ ہے۔
بالآخر یہ قادرالکلام اور صاحب طرز شاعر۳؍۴اکتوبر۱۹۸۳ء کی درمیانی شب میں ۲بج کر ۰۱منٹ پر اس احساس محرومی کے ساتھ کہ:
اٹھ گئے گوہر مضمون کے پرکھنے والے
کیجیے پیش کسے اب درِ دریائے سخن
اس دارِ فانی سے عالم جاودانی کی طرف یہ کہہ کر رخصت ہوگیا کہ:
مر کے ہم اے برقؔ پائیں گے حیات جاوداں
ہے بقا کا پیش خیمہ اختتامِ زندگی
والد محترم کے انتقال کے بعد برادرِ بزرگ جناب ڈاکٹر رحمت علی اکمل جو خود نہایت صاف ستھرا شعری ذوق رکھتے تھے اور اردو کے علاوہ ہندی اور بھوجپوری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے اپنے ذوق سلیم کے مطابق ان کے مجموعہ کلام کو ترتیب دینا چاہتے تھے لیکن افسوس زندگی نے وفانہ کی اور ان کا یہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہو سکا اور بالا ٓخر
قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
لیکن بقول حضرت شمیم کرہانی:
رقاصۂ دوراں کے آہنگ پہ کیا بولے
خود اپنے مسائل میں الجھی ہوئی پائل ہے
مختلف وجوہات اور نامساعد حالات کی وجہ سے اس کام میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ بہرحال برادرانِ عزیز ڈاکٹر شوکت علی شوکت برکت علی ، امجد علی اشہد علی اور عزیزی قمرالدین سلمہ ابن برکت علی اور میر ے صاحبزادے فرازعالم سلمہ کے اصرار اور والدہ محترمہ کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں اس مجموعہ کلام کی ترتیب اور اشاعت کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
گر قبول افتدزہے عزوشرف
والدہ محترمہ اور برادرِ عزیز جناب برکت علی صدیقی اعظمی کی خصوصی دلچسپی اور دامے درمے، قدمے وسخنے تعاون کیلئے جس کے بغیر اس شعری مجموعے کا منظر عام پر آناناممکن تھا، ان کامر ہونِ منت اور صمیم قلب سے سپاس گزارہوں۔
اس مجموعہ کلام کی ترتیب اور اشاعت کے ہر مرحلہ میں عزیزم ڈاکٹر عقیل احمد (سکریٹری غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین نئی دہلی) کاپر خلوص تعاون شامل حال رہاہے اور فی الواقع انہوں نے رفاقت کاحق ادا کردیا۔ میرے پاس ان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔میں والد محترم کے الفاظ میں صرف یہی کہہ سکتاہوں کہ:
بڑھے بڑھتی ہی جائے بحرذخارِ ترقی میں
نہ اس کی کشتی عمرِ رواں محتاج لنگر ہو
کشائش آکے خود اس کے گلے کاہار ہوجائے
زرومالِ زمانہ اس کے قدموں پر نچھاور ہو
دعا ہے صدق دل سے برقؔ کی اے خالق اکبر
کہ تدریجی ترقی کا نہ بند اس پرکبھی در ہو
محترم ریحان احمد عباس (پروپرائٹر افراح کمپیوٹر سنٹر)کی خصوصی دلچسپی، مشفقانہ مشورے اور رہنمائی نیز کمپیوزنگ میں عزیزی محمد اعلم اور عبدالعظیم کی جانفشانی قابل قدر ہے جس کیلئے میں ان لوگوں کا مشکور ہوں۔ محترم ضیاء الدین اصلاحی (مدیر ماہنامہ معارف وناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ) ڈاکٹر تابش مہدی اور ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی کی حوصلہ افزائی اور مفید مشوروں کے لئے ان کا مرہون منت اور تہہ دل سے شکر گزارہوں۔ ہمکارِ عزیز سید لائق علی اور ولی اللہ ولی (شعبہ فارسی، آل انڈیاریڈیو) کی تشویق بھی وجہ جمعیت خاطر ہے میں ان کابھی سپاس گزارہوں۔
 
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
(مترجم؍انائو نسر شعبہ فارسی آل انڈیاریڈیو،نئ دہلی )
9/598،ذاکرنگر،جامعہ نگر
نئی دہلی۔110025
فون نمبر:26984938(R)
++++

 

 
You are Visitor Number : 1984