donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Rehan Ghani
Journalist
--: Biography of Rehan Ghani :--

 

 ریحان غنی 

Name: Rehan Ghani
Father's Name:- Syed Shah Noman Ghani
Date of Birth:- 2,March 1952
Place of Birth::- Patna
والد کا نام : سید شاہ نعمان غنی
تاریخ پیدائش : ۲ مارچ ۱۹۵۲
جائے پیدائش : پٹنہ
ریحان غنی نے قومی، ملی معاشرتی اور لسانی افکار و اظہار سے بہار کے اردو صحافیوں میں اپنی خاص جگہ بنائی ہے۔ اردو صحافت ان کی مادی ضروریات پوری کرنے کی اہل تو نہیں ہو سکی، لیکن انہیں اپنے صحافتی فرائض پورا کر جو روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہی ان کے لئے بڑی دولت ہے اور اس دولت سے ریحان غنی مالا مال ہیں۔
ریحان غنی نے ایک متوسط لیکن ، دینی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، شرافت ، ایمانداری اور قلم کی حرمت کی پاسداری کا فیض انہیں ورثے میں ملا اور وہ اپنی ان و رائت کو پوری طرح محفوظ رکھنے میں کامیاب ہیں۔ ریحان غنی کے دادا اور والد دونوں ہی ایک جید عالم دین و ادب تھے، اس لئے ان کی بنیادی تعلیم اسی بیچ پر ہوئی۔ پھلواری شریف ہائی اسکول سے ۱۹۶۷میں میٹرک پاس کیا، اور انٹر مرز ا غالب کالج سے ۱۹۷۳میں کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسیٹی سے بی۔ اے۔ ایم۔ اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
ریحان غنی نے ۱۹۷۶میں گریجوئشن کرنے کے بعد ہی ۱۹۷۷میں صحافتی دنیا میں اپنا قدم رکھا اور اس زمانے کا مشہور روزنامہ ’’سنگم‘ جس کے مدیر غلام سرور جیسے معروف اور بے باک صحافی تھے ،سے صحافت کی ابجد شروع کی۔ ذہانت، متانت، سنجیدگی اور شائشتگی کے ساتھ ساتھ ظلم و استحصال کے خلاف بغاوت کے عناصر نے بہت جلد، لوگوں کی توجہ ان کی جانب مبذول ہو گئی، غلام سرور جیسے سخت گیر صحافی بھی کبھی کبھی ان کی بعض رپورٹنگ یا تبصرہ کو بعض مصلحت پسندی کی بناء پر بدلنا چاہتے، تو بھی بدل نہیںپاتے۔ پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں صدر شعبہ کو لے کر جو تنازعہ کھڑا ہوا اور ریحان غنی حق پر رہنے والے کا ساتھ دے رہے تھے،جبکہ غلام سرور دوسرے شخص سے دوستی نباہ رہے تھے۔ لیکن ریحان غنی کی رپورٹ چونکہ صداقت پر مبنی ہوتی تھی، اس لئے وہ چاہ کر بھی بدل نہیں پاتے تھے۔ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں۔
’’سنگم‘‘ میں ریحان غنی نے ۱۹۸۱تک صرف صحافتی ذمہ داریاں ہی نہیں نبھائیں، بلکہ ان کے لئے ’’سنگم‘‘ کا دفتر ایک تجربہ گاہ کی طرح رہا۔ انہیں یہاں غلام سرور جیسے صحافی کے ساتھ ساتھ خورشید پرویز صدیقی جیسے باصلاحیت صحافی کی بھی صحبت ملی اور ان کی سوچ اور فکر کا دائرہ پھیلتا گیا، ذہنی اور صحافتی  بالیدگی نے ان کے اندر اعتماد اور اعتبار پیدا کر دیا، یہی وجہ تھی کہ یکم اپریل ۱۹۸۱سے پٹنہ سے ’’قومی آواز‘‘ جیسا بڑے گروپ کا روزنامہ شائع ہونا شروع ہوا تو ریحان غنی کو اس اخبار میں ترجیح دی گئی اور اس بڑے اخبار میں ریحان غنی نے اپنی زبردست علمی، ادبی، لسانی، اور صحافتی صلاحیتوںکا مظاہرہ کیا۔ اسی دوران محکمہ راج بھاشا، حکومت بہار میں ان کی مترجم کی حیثیت سے تقرری ہو گئی۔ ۱۹۸۳ میں انہوں نے ملازمت قبول ضرور کی، لیکن قومی اور ملی مسائل پر اظہار خیال کے لئے ان کی تڑپ جاری رہی، ذہنی انتشار، تذبذب اور بے چینی نے انہیں اس طرح پریشان کیا کہ آخر کار انہوں نے ۱۹۸۵میں ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور روحانی و صحافتی غذا کے لئے ایک بار پھر ’’قومی آواز‘‘ میںآکر اپنے قلم کو شمشیر برہنہ کی طرح استعمال کرنے لگے۔ لیکن افسوس کہ ۱۹۹۲میں ’’قومی آواز‘ نے دم توڑ دیا۔ ۱۹۹۵میں پٹنہ سے بڑی سج دھج اور پر وقار انداز میں ’’انقلاب جدید‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی، جس میں ریحان غنی کو ۱۹۹۵سے ۱۹۹۷تک اپنے صحافتی جوہر دکھانے کا خوب موقع ملا۔ ان کی تحریر میں بلا کی سحرانگیزی ہوتی، چبھتے ہوئے جملے اور طنز کی آمیزش سے ایک خاص تاثر ابھرتا ایک زمانہ ان کے اداریوں اور تبصروں کا گرویدہ رہا۔ ۱۹۹۷میں ’’انقلاب جدید‘‘ کا اشاعت تعطل کی شکار ہو گیا، اس دوران وہ پٹنہ کے ریڈیو اور دوردرشن کے اردو نیوز کو اپنی صحافتی صلاحیتوں سے معیاری اور مؤثر بناتے رہے۔ ۲۰۰۴سے پٹنہ کے روزنامہ ’’پندار‘‘ میں مدیر کی حیثیت سے ایک بار پھر انہیںآزادیٔ تحریر کا موقع ملا اور وہ اپنی بے باک، بے لاگ، بے خوف اور جرأت مندانہ اداریوں اور مختلف تبصروںسے خراج تحسین و صول رہے ہیں۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)

 

 
You are Visitor Number : 1900