donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Seemab Akbarabadi
Poet/Writer
--: Biography of Seemab Akbarabadi :--

Seemab Akbarabadi (1882-1951) real name was Aashiq Hussain Siddiqui and was a renowned Urdu poet belonging to the Daagh School. He hailed from Agra. He was the eldest son of Mohammad Hussain Siddiqui, who was himself a Urdu poet, author of several books. The untimely demise of his father in 1897 forced Seemab to give up his studies and seek a livelihood first in Agra and then in Kanpur before joining Railways service at Ajmer from where he resigned in 1922 and returned to Agra. In the year 1923 he founded Qasr-ul-adab, a publishing house. Hr founded monthly Shair in 1930, which was continued by his son Aijaz Siddqui and now grandsons Iftikhar Imam Siddiqui etc. His monumental work, "Wahi-e-Manzoom ", an Urdu translation in verse form of the Holy Quran was published thirty years after his death. His books included 1. Naistan (1923), 2. Ilhaam-e-manzoom (1928), 3. Kaar-e-imroz (1934), 4. Kaleem-e-ajam (1936), 5. Dastur-ul-islah (1940), 6. Saaz-o-aahang (1941), 7. Krishna Gita (1942), 8. Aalam Aashool (1943), 9. Sidratul, Muntaha (1946), 10. Sher-e-inqlaab ( 1947), 11. Loh-e-mahfooz (1979), 12. Wahi-e-manzoom (1981)

 

 سیماب اکبر آبادی 

خود نوشت
 
 میں جمادی الثانی ۱۳۹۹ھ مطابق ۱۸۸۰ء بروز دو شنبہ بوقت صبح اکبر آباد ( آگرہ) کے محلہ نائی منڈی ککو گلی، املی والے مکان میں پیدا ہوا۔ والد ماجد مولانا محمد حسین مرحوم ( نور اللہ مرقدہ) فاضل عصر اور عالم متبحر تھے۔ اجمیر شریف میں ٹائمس آف انڈیا پریس کی شاخ کے افسرِ اعلیٰ تھے۔ اپریل ۱۸۹۷ء میں بمقام آگرہ کو انتقال فرمایا۔
 
 شاعیر میرا فطری ذوق اور پدری میراث ہے۔ کتب متداولہ عربی و فارسی کی تکمیل کے بعد حضرت والد مرحوم نے مجھے انگریزی مدرسے میں داخل کر دیا۔ جو گورنمنٹ کالج اجمیر کے تعلق و الحاق کی وجہ سے برانچ اسکول کہلاتا تھا۔ برانچ اسکول کے مدارس درس بعجلت طے کرکے جب کالج پہنچا تو وہاں مولوی سدید الدین قریشی اکبر آبادی مرحوم، مولوی تحسین علی اجمیری مرحوم اور مولوی عابد حسین کی عالمانہ اور فاضلانہ توجہات نے میرے اس ذوقِ شاعری کو بے حجاب کر دیا جو میری فطرت میں ازل سے ودیعت تھا۔ میرا دستور یہ تھا کہ فارسی نصاب میں جتنے اشعار شریک درس ہوتے تھے ان کا ترجمہ اردو نظم میں کرکے اپنے اساتذہ کے سامنے رکھ دیتا تھا اور یہ مقدس حضرات میری اس جسارت کی حوصلہ افزائی سے پذیرائی فرماتے تھے۔
 
مجھے خوب یاد ہے کہ مولوی عابد حسین کے سامنے جب میں نے ایک روز بوستاں کی ایک حکایت کا ترجمہ منظوم پیش کیا تو مولوی صاحب نے میری کاپی کے اُسی صفحے پر پنسپل سے یہ شعر لکھ دیا:
 
جب نہیں ہے شعر کہنے کا شعور
 پھر بھلا ہے شعر کہنا کیا ضرور
 
لیکن ساتھ ہی ساتھ تبسم ہو کر یہ بھی فرما دیا کہ کل پھر کسی فارسی نظم کا ترجمہ نظم ہی میں کرکے لانا۔ غرض یہ میری عادت جاریہ تھی کہ میں ہاتفی ، جامی، سعدی، عرفی، قآنی وغیرہ کے اشعار قطعات کا ترجمہ (جن کا انتخاب کلام جزو نصاب تھا) ہمیشہ بصورت نظم پیش کیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ جسارت اتنی بڑھ گئی کہ امتحان کے پرچو ں میں بھی میں ہمیشہ فارسی نظم کا ترجمہ اردو نظم ہی میں کرتا اور صاحبِ ذوق ممتحن میری اس بدعت سے کبھی چیں بہ چیں نہ ہوئے۔
 
۱۷؍ سال کی عمر میں مجبوراً کالج چھوڑ دینا پڑا۔ اس وقت میں ایف اے کا آخری امتحان دینے والا تھا ۔ والد مرحوم کے انتقال نے سلسلہ تعلیم جاری رکھنے سے معذور رکھا۔ بیس سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ وہ زمانہ تھا کہ میں بے تکلف شعر کہہ لیتا تھا۔ مگر چوں کہ شاہراہ سخن میں ہنوز کسی کو اپنا رہنما نہیں بنایا تھا۔ اس لئے مشاعرے میں غزل پڑھنے سے کسی قدر جھجک ہوئی تھی۔
 
 والد مرحوم کے انتقال کے بعد ان کا فرزند اکبر ہونے کی حیثیت سے گھر کا تمام بار میرے سر پر آپڑا۔ اور مجھے بہ سلسلہ معاش کان پور جانا پڑا۔ حکیم ازل لکھنوی، جناب محب لکھنوی، اور کانپور کے اکثر شعرا سے مجالست رہی۔ اس زمانے میں وہاں حکیم سید ضامن علی جلال لکھنوی کا طوطی بول رہا تھا اور قرب و جوار کی وجہ سے کانپور لکھنو کے زیر اثر تھا۔ لیکن میری طبیعت فطرتاً ’’دبستان دہلی‘‘ کی طرف مائل تھی۔ اس لئے میں ۱۸۹۸ء میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کا شاگرد ہو گیا۔ لیکن دوسری یا تیسری غزل پر فصحیح الملک مرحوم نے لکھ دیا کہ ابھی آپ کو مشق کی ضرورت ہے۔ اس تنبیہ کے بعد میں نے غزلوں کی ترسیل کچھ عرصہ کے لئے بند کردی اور مشق سخن کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کئی ماہ تک یہ سلسلہ مشق اسی طرح جاری رہا۔ اس کے بعد مول گنج ( کانپور) میں ایک مشاعرہ کا اعلان ہوا۔ دم نکلتا ہے کم نکلتا ہے‘‘ میں نے ایک غزل کہی اور استاد کی خدمت میں حیدر آباد بھیج دی۔ یہ غزل جب بعد اصلاح واپس آئی تو پیشانی پر سرخ سیاہی سے لکھا ہوا تھا۔ آفریں ہے، کیا خوب غزل کہی ہے۔ بس پھر تو حوصلے بڑھ گئے۔ طبیعت کی جھجھک نکل گئی اور میں کانپور اور لکھنو کے مشاعروں میں بے تکلف غزل سرائی کرنے لگا۔
 
 اصلاح کا سلسلہ فصیح الملک مرحوم کی وفات سے کچھ پہلے تک جاری رہا۔ ان کی وفات کے بعد پھر میں نے کسی کو غزل نہ دکھائی۔ نظر مرحوم وارثی تھے۔ کانپور میں وہ اور میں ایک ہی مکان میں ( بمقام گوال ٹولی) رہا کرتے تھے۔ ان کی تشویق سے انہیں کی ہمراہی میں ایک دن دیوہ شریف جانے کا اتفاق ہوا۔ اور مرشدی و مولائی حضرت حاجی حافظ سید شاہ وارث علی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ دیکھا جو کچھ دیکھا اور پایا جو کچھ پایا۔
 
کانپور سے بیمار ہو کر آگرہ آیا۔ آگرہ سے بسلسلہ ملازمت اجمیر شریف جانا پڑا جہاں کبھی طالب علمانہ زندگی بسر کی تھی۔ پانچ سال تک اجمیر شریف رہ کر ۱۸۹۸ء میں پھر آگرہ آگیا۔ اور رسالہ مرصع کا مدیر رہا۔ یہاں کچھ روز ٹھہر کر ٹونڈلہ (ضلع آگرہ) بہ صیغہ ملازمت جانا پڑا۔ آگرہ اخبار کی ادارت بھی ٹونڈلے کی ملازمت کے ساتھ شریک مشاغل تھی۔
 
 جب معلوم ہوا کہ فطرت نے مجھے اس لئے پیدا نہیں کیا کہ میں اپنی تمام عمر ذہنی غلمی میں بسر کردوں ۔ بلکہ میری تخلیق خدمت ادب کے لئے ہوئی ہے۔ اس انکشافِ ضمیری کے بعد میں نے ملازمت کو ابدی استعفیٰ دے دیا۔ اور اکبر آباد (آگرہ ) میں مستقل اقامت اختیار کر لی۔ سیماب اکبر آبادی کی وفات 30 جنوری 1951 ء میں ہوئی۔
 
**********************
 
You are Visitor Number : 1729