donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shamsul Hoda Ashtanvi
Journalist
--: Biography of Shamsul Hoda Ashtanvi :--

 

 شمس الہدی استھانوی 

Name: Md. Shamsul Hoda 
Pen Name:- Shamsul Hoda Ashtanvi
Father's Name:- Md. Sakhawat Ali
Date of Birth:- 5, June, 1934
Place of Birth::- Nauranga (Nalanda)
Date of Death:- 5, August 2000
Place of Lying: Shah Ganj Qabristan, Patna
 
اصل نام : محمد شمس الھدٰی
ولدیت : محمدسخاوت علی
تاریخ ولادت : ۵جون ۱۹۳۴
جائے ولادت : نور نگا (نالندہ)
وفات : ۵ اگست ۲۰۰۰
مدفن : شاہ گنج قبرستان، پٹنہ
شمس الھدٰی استھانوی ایک ایسے صحافی تھے، جنہوں نے نہ صرف بہار کی اردو صحافت کے معیار کو بلند کرنے کی سعی کی بلکہ بہار کے اردو صحافیوں کے وقار اور عظمت کے لئے ہمیشہ لڑائیاں لڑتے رہے۔
شمس الہدی استھانوی نے سید نظیر حیدر کی رہنمائی میں ان کے مؤقر روزنامہ ’’صدائے عام‘‘ میں بحیثیت رپورٹر کام کرنا شروع کیا اوروہ اپنی مدبرانہ اور دانشورانہ انداز تحریر سے بہار کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اقتصادی اور لسانی مسائل کو اس انداز سے پیش کرتے کہ حکومت کی توجہ مبذول ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ بلکہ بعض اوقا ت ان کی رپورٹ اس قدر مؤثر اور ہنگامہ خیز ہوتی کہ جلسے، جلوس، مظاہر ے اور احتجاج کی شکل اختیار کر لیتے۔
’’صدائے عام‘‘ جیسے مقبول روز نامہ کے نمائندہ کی حیثیت سے انہیں اکثر سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دینی اکابرین سے ملنے اور انٹرویو لینے کا موقع ملتا، چونکہ وہ ایک باشعوراور جرأت مند صحافی تھے، اس لئے ایسے مواقع پر ان کے بعض سوالوں اور نکتوں پر ان اکابرین اور رہنمائوں کے حواس باختہ ہو جاتے۔
شمس الہدی استھانوی نے ابتدائی تعلیم استھانواں سے حاصل کی اور اس کے بعد انٹر اور بی۔اے۔ نالندہ کالج سے کیا۔ اس کے بعد وہ پٹنہ پہنچے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ (اردو) اور قانون کا امتحان پاس کیا۔ اتنی تعلیمی لیاقت کے بعد وہ کسی کالج کے معلم یا پھر و کیل ہو سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ملک و ملت کی خدمات کے لئے اردو صحافت کو اپنا یا اور عمر بھر اس پیشہ سے وابستہ رہے۔
’’صدائے عام‘‘ سے انہیں جو صحافتی تجربہ حاصل ہوا۔ اس تجربہ سے انہوں نے فائدہ اٹھانے کے لئے ۱۹۶۳ سے اپنا ایک ہفتہ وار اخبار ’’ہمارا نعرہ‘ نکالنا شروع کیا۔ جس میں انہیں زیادہ آزادیٔ تحریر کا موقع ملا اور ان کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ یہ اخبار کمزور بد حال، مفلوک الحال اور پسماندہ طبقوں کی آواز بن کر ابھرا۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، شمس الہدی استھانوی نے ’’ہمارا نعرہ‘‘ کو دس سال بعد روز نامہ کر دیا۔نظریاتی طور پر شمس الہدی استھانوی کانگریس کے ہمنوا تھے۔ صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کا سیاسی میدان میں بھی دخل تھا۔ عملی سیاست میں بھی ان کی کافی حصہ داری رہی، ۱۹۷۲ میںللت نرائن مشر انے انہیں استھانواں اسمبلی حلقہ سے اور پھر اسی حلقہ سے ۱۹۸۰میں جگن ناتھ مشرا نے کانگریس کا امیدوار بنا یا، لیکن شمس الہدی استھانوی سیاسی دائو پیچ سے واقف نہ ہونے کے سبب کا میاب نہیں ہو سکے۔
شمس الہدی استھانوی ، بہار اردو ایڈیٹر کانفرس کے سرگرم رکن رہے اور بعد میں اس کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بہار کے اردو صحافیوں کے وقار کو سر بلند کرنے کے لئے انہو ں نے بے حد اہم رول ادا کئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی بار وزیر اعظیم ہند اندرا گاندھی سے بھی ملاقات کی اور اپنی عالمانہ اور مد لل گفتگو سے کئی اہم مسائل کو حل کرانے کی کوششیں کیں۔ بہار کے اردو صحافیوں کے ساتھ حکومت کے غیر منصفانہ رویۂ اور اردو اخبارات کے لئے اشتہارات اور دیگر مرا عات کی پالیسوں پر شمس الہدی استھانوی نے ہمیشہ آگے بڑھکر ان کے تدارک کے لئے عملی جد و جہد کی ہے۔
شمس الہدی استھانوی نے ۱۹۶۶میں مذید ایک اخبار ’’کو ہکن ‘‘کے نام سے پہلے ہفتہ وار کی شکل میں اور بعد میں اسے بھی روز نامہ کر دیا تھا۔
شمس الہدی استھانوی بے حد منکسرا لمزاج، نیک طبیعت اور ملنسار شخصیت تھے۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی۔ وہ ہمیشہ وہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے، جو عام طور پر کانگریسوں کا لباس یعنی کھادی کا کرتا، پائجامہ، بنڈی اور سرپر گاندھی ٹوپی ہوتی۔ ان سے جو بھی ملتا، ان سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہتا۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 1626