donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Ahmad Urooj Qadri
Journalist
--: Biography of Syed Ahmad Urooj Qadri :--

 

 سید احمد عروج قادری  

 
Name: Syed Ahmad Urooj Qadri
Father's Name:- Syed Obaidullah Qadri
Date of Birth:- 24, March 1913
Place of Birth::- Amjhar Shareef (Aurangabad, Bihar)
Date of Death:- 17, May 1986
Place of Lying: Rampur, U.P.
 
 
ولدیت : سید عبید اللہ قادری
تاریخ پیدائش : ۲۴مارچ ۱۹۱۳
جائے پیدائش : امجھر شریف (اورنگ آباد ، بہار)
تاریخ وفات : ۱۷ مئی ۱۹۸۶
مدفن : (رام پور، اتر پردیش)
امجھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد ان کے والد مدرسہ شمس الہٰذی ، پٹنہ لے گئے، جہاں انہوں نے علوم دینیہ مکمل کیا۔اور اس کے فراغت کے بعد درس و تدریس کاسلسلہ شروع ہوا، ابتداء میں بہار شریف اور سہسرام کے مدرسوں میں معلم رہے، پھر ان کی تقرری مدرسہ اسلامیہ شمس الھدی، پٹنہ میں ہو گئی۔ جہاں انہیں بہت ساری کتابیں پڑھنے کو ملیں، ان کتابوں میں مولانا سید     ابو الاعلیٰ مودودی کی کئی کتابیں بھی شامل تھیں، جن سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور ۱۹۴۶ میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنادئے گئے۔ جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل ہوتے ہی، مدرسہ کے حل و عقد سے ان کے اختلافات بڑھنے لگے اور جو شرائط مدرسہ کے منتظمین لگا رہے تھے، وہ انہیں قطعی گوارہ نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے مدرسہ سے استعفیٰ دے دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد انہیں رام پور بلا لیا گیا اور ماہنامہ ’’زندگی‘‘ کی ادارت انہیں سونپ دی گئی۔ جس میں وہ نہایت انہماک سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں اشارات، ارشادات رسول، آبات قرانی کی تزکیری تشریح کے ساتھ ساتھ مقالہ، تراجم و اقتباسات رسائل و مسائل اور تنقید و تبصرے وغیرہ پیش کر تے۔ ان کی ادارت میں اسلامی صحافت کا ایک اعلیٰ نمونہ کر ماہنامہ ’’زندگی‘‘ ابھرا۔ اس کے کئی خاص نمبر مثلاً مسلم پرسنل لا نمبر اور طلاق نمبر وغیرہ شائع ہوئے، جس میں ان کی بہترین صحافتی صلاحتیں ابھر کر سامنے آئیں—’’مسلم پرسنل لا نمبر میں انہوں نے پروفیسر عبد المغنی کا ایک متنازعہ مضمون بہ عنوان’’ مسلمانوں کے لئے آزاد ہندوستان کا چیلنج ‘‘شائع کیا۔ جس کی اشاعت پر رام پور میں کیس درج کر دیا گیا اور ۱۴ دسمبر ۱۹۶۹کو انہیں مدیر ’’زندگی‘‘ کی حیثیت سے گرفتار کر لیا گیا بعد میں ۲۶ گھنٹے بعد رہائی ہوئی۔ مولانا سید احمد قادری عروج کو نفاذ ایمر جنسی کے دوران ۵ جولائی ۱۹۷۵کو دہلی میں گرفتار کیا گیا اور تقریباً ساڑھے چھہ ماہ بعد یعنی ۲۰ جنوری ۱۹۷۶ کو وہ رہا ہوئے۔ 
پروفیسر عبد المغنی نے مولا نا قادری کے نثری اسلوب پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھا تھا۔
’’مولانا کی نثر نہایت شستہ رواں اور سلیس ہے۔ ان کے اسلوب میں قدرے مزاح کی چاشنی بھی ہے، جس میں ظرافت کا رنگ غالب ہے، گرچہ کبھی کبھی طنز کا نشتر بھی نمایاں ہوتا ہے۔ خاص کر جب وہ فاسد خیالات یاناقص افکار پر تنقید کرتے ہیں۔ اس سے طرز بیان میں تلخی تو نہیں، مگر تیکھا پن پیدا ہوتا ہے، جو ان کی رائے سے اتفاق کرنے والوں کو یقینا دل چسپ معلوم ہوگا۔ مولانا نے اپنے تبصروں میں جدید تعلیم یافتہ اصحاب کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ چند قدیم صوفیا کی خطائوں کو بھی اچھی طرح بے نقاب کیا ہے۔ ان تبصروں میں عام طور پر ان کا موقف اتنا معقول و مستحکم ہوتا ہے کہ اس سے اختلاف کرنا آسان نہیں۔
(ماہنامہ ’’رفیق‘ پٹنہ دسمبر ۱۹۸۶مولانا سید احمد عروج قادری نمبر صفحہ ۵۱)
سید احمد عروج قادری نے اسلامی صحافت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے ’’زندگی‘‘ اور ’’زندگی نو‘‘کے اپنے ادارئے اور دیگر مضامین میں جو نقوش چھوڑے ہیں، انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مولانا ایک ادبی ماہنامہ ’’دانش‘ کے چند شماروں کی ادارت میں بھی شامل رہے— مولانا کا یہ صحافتی سفر ۱۹۶۰سے مئی ۱۹۸۶ تک پورے آب و تاب اور ایک خاص عالمانہ شان کے ساتھ جاری رہا۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)

 

 
You are Visitor Number : 2754