donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Tajwar Najibabadi
Poet
--: Biography of Tajwar Najibabadi :--

 

 تاجور نجیب آبادی 
 
خود نوشت
 
میں نسبتاً درانی افغان ہوں، اپنے وطن نجیب آباد میں فارسی عربی کی ابتدائی تعلیم میں نے اپنے برادر معظم سے حاصل کی۔ ماہ صفر ۱۳۲۶ھ میں دس سال کی عمر میں دار العلوم دیو بند کا طالب علم بنا۔ دس سال وہاں رہ کر درس نظامیہ کی تکمیل کرکے اگست ۱۹۱۴ء میں لاہور آیا۔ اور حسب ایماء حضرت شمس العلماء مفتی عبد اللہ ٹونکی اور ینٹل کالج میں داخل ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ۱۵ء میں مولوی فاضل اور ۱۶ئ؁ میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۶ء میں ہی رسالہ مخزن کا ایڈیٹر بنا۔ ۱۹۲۱ء میں دیال سنگھ کالج لاہور میں فارسی اور اردوکے استاد کی حیثیت میں تقرر ہوا۔ اسی سال رسالہ ہمایوں لاہور میں معاون مدیر بنایا گیا۔۱۹۲۹ء میں رسالہ ادبی دنیا اور ۱۹۳۴ء میں رسالہ شاہکار جاری کیا۔ ادبی دنیا میری انتظامی ناقابلیت اور زود اعتمادی کے سبب میرے ہاتھ سے منتقل ہو کر دوسرے ہاتھوں میں پہنچ گیا اور شاہکار اب تک میری نگرانی میں جاری ہے۔ میں نے سارا عہد طالب علمی امتیازی شہرت میں بسر کیا تھا۔ مگر غالباً کسی گناہ کبیرہ کی پاداش کے طور پر قدر ت نے مجھے اردو کے جنون خدمت میں مبتلا کر دیا۔ اردو زبان و ادب کی راہ میں اپنا ذاتی سرمایہ تیس ہزار روپیہ کاروباری آمدنی کا  ، اپنی جوانی صحت و طاقت اور متعلقین کا حال و مستقبل سب کچھ نثار کر دیا۔
 
 اردو مرکز کے نام سے ۱۹۲۶ء میں ایک ادبی تصنیف و تالیف قائم کیا تھا۔ جو اب تک قائم ہے۔ میرے ہندستان گیر شہرت رکھنے والے شاگردوں کی ایک جماعت اردو اصناف ادب کے ہر شعبے میں رہنمایانہ خدمت انجام دے رہی ہے۔ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جدید دور ادب کی تعمیر کرنے والوں میں 80 فیصدی میرے شاگرد ہیں۔ اردو میری تفریح تھی لیکن شامت اعمال سے یہ تفریح عذاب زندگی بن گئی۔ چوں کہ میرا مجموعہ کلام ابھی تک شائع نہ ہو سکا۔ اس لئے جدید دور کے نام نہاد نقادوں کے دائرہ تعارف سے آج تک خارج ہوں۔ متعدد اصناف ادب میں بیسیوں شاگردوں کو آسمانِ شہرت پر پہنچا دیا۔ لیکن ماہناموں کے صفحات سے اردو نشر کی تاریخ مرتب کرنے والے ان تابناک ستاروں کے مبدا نور سے بے خبر بن رہے ہیں۔ ادھر جس ادبی فضا میں زندگی کے پچیس سال بسر کر چکا ہوں وہ میرے لئے اس وجہ سے نا ساز گار چلی آتی ہے کہ میں دریائے ستلج کے اُس پار کیوں پیداہوا۔
 
اوائل مشق کا کلام تو اگر گم نہ ہوتا تو میں اسے خود گم کر دیتا۔ البتہ اواسط مشق کے ایک مجموعے کے گم ہونے کا افسوس ہے۔ غالباً کسی شاگرد کی سعادت مندی اس سرقے کی مرتکب ہوئی۔ اس مجموعے کے گم ہو جانے سے میری ہمت شکست ہو گئی۔ اور پھر کبھی میں نے اپنے کلام کی فراہمی کی جانب توجہ نہیں کی۔
 
میرا کلام وقتاً فوقتاً پنجاب کے اخبارات اور ماہناموں میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میرے پاس اس کی کوئی نقل بھی نہیں نہ یہ یاد کہ کس پرچے میں کب شائع ہوا۔ حافظہ بھی اب کمزور ہو چکا ہے۔ 
 
تاجور نجیب آبادی کا انتقال 30 جنوری 1951 ء میں ہوا۔
 
*****************************
 
You are Visitor Number : 2118