donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Zar Azimabadi
Poet
--: Biography of Zar Azimabadi :--

 

 زار عظیم آبادی 
 
 
 سید کاظم حسین (تخلص زار) ابن سید جعفر حسین ۱۸۹۶ء میں محلہ مغل پورہ پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔ زارؔ کی دادیہال شیش محل لکھنو میں تھی۔ ان کے دادا سید فدا حسین لکھنو سے ہجرت کرکے پٹنہ آئے تھے اور مع اہل و عیال مستقل طور پر یہیں مقیم ہو گئے تھے۔ ان کے بڑے لڑکے سید جعفر حسین کی شادی مغل پورہ پٹنہ سیٹی کے ننھے آغا صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی۔ ان سے تین اولادیں ہوئیں جن میں زار سب سے بڑے تھے۔ سید جعفر حسین کو طبابت ورثے میں ملی تھی۔ اپنے والد سید فدا حسین کی طرح وہ بھی شہر کے مشہور حکیموں میں شمار ہوتے تھے او رحکیم بٹوہ کے نام سے مشہور تھے۔ حکیم بٹوہ کی وجہ تسمیہ تھی کہ وہ ہمیشہ چمڑے کا ایک بڑا سب بٹوا اپنے پاس رکھتے تھے اور مرض کی تشخیص کے بعد اسی بوٹے میں سے ہر طرح کی دوائیاں نکال کر دیتے تھے۔ خاندان خوشحال نہ سہی خود کفیل ضرورت تھا۔ مگر پلیگ کی وبا میں زار کو ایک ہفتے کے اندر اپنے والد سمیت گیارہ بزرگوں کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔ صرف نو برس کے تھے جب یہ حادثہ ہوا۔ ماں نے دونوں بھائیوں او ربہن کی پرورش کا بار بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا مگر مالی وسائل کی کمی کے سبب زار مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ سیٹی کی ابتدائی تعلیم سے آگے نہ بڑھ سکے۔ایسے میں ان کی ذہنی تشکیل و تعمیر میں بڑی حد تک عظیم آباد قابل رشک ادبی ماحول کا ہی حصہ رہا۔ ذوق شعری کو جلا دینے میں پہلے نبّا صاحب موج شاگرد شاداور اس کے بعد میر انیس کے نواسے میر ذکی حسین ذکی نے نمایاں رول ادا کیا۔ خاص طورپر ذکی کی شاگردی نے زار میں مرثیہ گوئی کا ذوق پیدا کیا اور انہوں نے کئی یاد گار مرثیے کہے۔
 
 زار کی پوری زندگی مالی پریشانیوں او رنا مساعد حالات سے لڑتے ہوئے گذری۔ حصول معاش کے لئے کئی طرح کی تجارت کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ چوں کہ طبیعت میں قناعت بہت تھی  اس لئے خوشحالی کے ساتھ گذر بسر ہوتی رہی۔ مزاج میں محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ خوش مزاجی اور دردمندی کا مادہ بہت تھا اسی لئے اپنی پریشان حالی کو بھول کر دوسروں کی مدد میں آگے آگے رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر رمضان المبارک کی دوسری تاریخ میں روزہ رکھے ہوئے دن بھر ایک دوست کی خاطر روپیوں کا بندوبست کرنے میں لگے رہے۔ صحت پہلے سے خراب تھی، آٹھ بجے رات کے قریب طبیعت بگڑ گئی اور قلب کے دورے سے ۲۹ جنوری ۱۹۶۳ء کو انتقال ہو گیا۔ ۳۰ جنوری کو مقبرہ نو ڈھال پٹنہ سیٹی
 
میں سپرد خاک ہوئے۔ علامہ جمیل مظہری نے قطعہ تاریخ کہا۔
 
لکھ قلم ’’ آج ہوا خاتمہ گریٔ بزم‘‘ ۱۳۸۲ھ
یعنی اب’’ زار سخنداں نہ رہا ہائے سخن‘‘ ۱۹۸۳ء
 
زار کے صاحبزادے تراب حسین فردوسی ان کی ادبی وراثتوں کے امین رہے ہیں۔ پٹنہ میں’’ شام غریباں‘‘ کی مجلس میں وہ  برسوں خاص اہتمام کے ساتھ ایک یاد گار ’’ سلام‘‘ پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ قطعہ
 
بھی بہت مشہور رہا ہے۔
 ہم توجام و سبو سے کھیلیں گے
 روز محشر جواب دے لیں گے
درپہ جنت کے کون روکے گا
اپنے ساقی کا نام لے لیں گے
 
زار کی غزل گوئی کا آغاز ۱۹۲۰ء کے آس پاس ہوا۔ ابتداء میں شمشیر تخلص کے ساتھ غزلیں کہتے رہے جن پہ لکھنو اسکول کی خارجیت کا رنگ حاوی رہا۔ بعد میں زار تخلص کے ساتھ غزلیں اور نظمیں کہیں۔ میں نے ان کا پہلا اور واحد مجموعہ کلام ۱۹۷۷ء میں ’’ نشاط غم‘‘  کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس میں مختلف اصناف سخن نعت، سلام، قصیدہ، مسدس اور غزل وغیرہ کے نمونے موجود ہیں۔ زار کی شخصیت اور شاعری پہ اظہار خیال بھی ہے اور ان کے امتیازات کی نشاندہی بھی۔ ان کی علم العروض میں مہارات کا بھی ذکر ہے اور فارسی دانی کا بھی۔ یہاں ان امور کی تکرار ضروری نہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ کلا سیکی طرز اظہار کے ساتھ شاعری کرتے ہوئے عظیم آباد کے اہم ترین شاعروں میں ایک تصور کئے جا سکتے ہیں۔ میرے خیال سے وہ رساخ شاد اور مرثیہ در حال حضرت علی اکبر کا ایک بند پیش کرتا ہوں جس سے ان کی قادر الکلامی اور انفرادی طرز سخن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غزلوں کے اشعار یہ ہیں۔
 
 حد نگاہ تک کہیں جائے اماں نہیں
 وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں
٭٭٭
سرِ محفل اٹھا تھا آنسوئوں کا قافلہ دل سے
 مگر غیرت نے واپس کر دیا آنکھوں کی منزل سے
 نا دیدہ کتنے جلوے ابھی ہیں خبر نہیں
 تسکینِ ذوق حاصل فکر و نظر نہیں
٭٭٭
یہ بوجھ پھینک دوں تو فضائے سکوں ملے
کب تک لئے پھروں قفس بال و پر کو میں
٭٭٭
تقدید دیکھتی ہے یوں مجھ کو بے رخی سے
 ناراض ہو گیا ہو جیسے کوئی کسی سے
٭٭٭
غنیمت ہے شب غم نیند اڑ جاتی ہے آنکھوں سے
سحر تک سینکڑوں خواب پریشاں کون دیکھے گا
٭٭٭
ایک مرثیہ کا ابتدائی بند
 برہم نظام ہستی نا پائیدار ہے
 جو رنگ دیکھتا ہوں وہ بے اعتبار ہے
 شاداں تھا جو ابھی وہ ابھی بے قرار ہے
 خوف خزاں بھی ہم رہ شوقِ بہار ہے
 آساں نہیں ہے عشق گل و بار و برگ کا
 کھٹکا ہر آن رہتا ہے صیاد مرگ کا
٭٭٭
اس بند میں ٹیپ کا شعر کا یہ انداز ملاحظہ ہو۔
بے ساختہ ہنسا شہہ عالم کا گلغدار 
 پھر کی بلند ہاتھ میں شمشیر آب دار
 تکبیر کہہ کے سر پہ کیا بے حیا کے وار
 اک ضرب میں کیا اسے مرکب سمیت چار
 نصرت نے چومے ہاتھ دل بو تراب کے
 فتح و ظفر نے لے لئے بو سے رکاب کے
نظم’’ نالہ یتیم‘‘ کا یہ بند بھی جذبات نگاری کے اعتبار سے بے مثال ہے۔
 
زار ہم بھی تھے کبھی دردِ یتیمی میں تپاں
 پھر گیا آنکھوں میں طفلی کی مصیبت کا سماں
 مقتضائے سنِ ہنسا دیتا تو کہتی تھی یہ ماں
 خانہ غم میں خوشی معیوب ہے اے میری جاں
 یہ تو بتلا دیجئے ہنسنے کے دن کب آئیں گے
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
**********************************
 
 
You are Visitor Number : 1838