donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Note
Title :
   Ghalib ki Tanqeed ke bad Sir Syed ka ruihan jadeed Taleem ki taraf hua

غالب کی تنقید کے بعد سرسید کا رجحان جدید تعلیم کی طرف ہوا


اُردو یونیورسٹی میں توسیعی لکچر۔

ڈاکٹر تقی عابدی اور ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد کی مخاطبت


 حیدرآباد ، 27؍فروری(پریس نوٹ) حالیہ عرصہ میں اخبارات میں اُردو کی کسم پرسی اور خراب حالت پر ایک اخبار میں مسلسل مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن کا عنوان جھارکھنڈ میں اردو، بہار میں اردو ، اتر پردیش میں اردو وغیرہ رہا۔ ان مضامین میں اردو کی بدحالی پر توجہ دلائی گئی تھی۔ لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اپنے قیام سے ہی اردو کی ترقی و ترویج پر کام کر رہی ہے اور اس کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ اسی سلسلہ کے طور پر میوات کے پسماندہ علاقہ میں ماڈل اسکول قائم کیا جارہا ہے اور جلد ہی پالی ٹیکنیک اور خواتین کی تعلیم کے لیے اسکولس اور کالجس قائم کیے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہارڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پرو وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے آج ’’غالب اور سر سید :ہندوستان کے دو روشن دماغ‘‘ کے زیر عنوان توسیعی لکچر کے موقع پر صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر محمد میاں کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا ہے اور وہ یوجی سی کی ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے دہلی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غالب اور سرسید دونوں یقینا روشن دماغ تھے اور ان پر ابھی ابھی ڈاکٹر تقی عابدی نے سیر حاصل لکچر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی روشن خیال ہونا چاہئے۔ اپنے ذہنوں کو ترقی دینی چاہئے۔ ورنہ اردو قدیم زبان بن کر رہ جائے گی اور خول میں بند ہوجائے گی۔ ڈاکٹر تقی عابدی، وزیٹنگ فیلو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اپنے توسیعی لکچر میں سرسید اور غالب کو خراج پیش کیا۔ دیوانِ غالب سرسید کے بڑے بھائی سید محمد کے پریس میں چھپا تھا۔ اس لیے ان کے تعلقات زیادہ تر سید محمد سے رہے۔ اس کے بعد سرسید بھی غالب کے حلقۂ احباب میں شامل ہوئے۔ یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سرسید بھی شاعری کرتے تھے اور یہ ممکن ہے کہ انہوں نے غالب سے اصلاح لی ہو لیکن اس کا ذکر نہیں ملتا۔ سرسید نے جب آئین اکبری تدوین کی تو اس پر مرزا غالب کو تقریظ لکھنے کے لیے کہا تھا جس پر غالب نے مثنوی کی شکل میں تقریظ لکھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں (سرسید) کو آئین اکبری نہیں لکھنی چاہئے تھی، کیونکہ یہ پرانے زمانے کی بات تھی۔ انہوں نے اپنی تقریظ میں انگریزوں کی ترقی اور ان کے قوانین کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ اصل میں سرسید کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ جس کے بعد سرسید نے اس تقریظ کے بغیر ہی آئین اکبری شائع کردی اور کچھ دنوں تک دونوں میں خط و کتابت کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد سرسید نے مراد نگر میں پہلا ایسا مدرسہ قائم کیا جس میں اردو و فارسی کے ساتھ مسلمانوں کو انگریزی کی تعلیم بھی دی گئی۔ اسی کے بعد سرسید نے غازی آباد میں بھی مدرسہ کھولا اور سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالبؔ اردو کے پہلے ترقی پسند شاعر تھے جنہوں نے ترقی کی بات کی۔ اس طرح ایک روشن دماغ (غالب) نے دوسرے روشن دماغ (سرسید) کے ہنر کو پہچان کر ان کی صحیح رہنمائی کی تھی بعد میں دونوں کی رنجشیں ختم ہوئیں اور خط و کتابت کا سلسلہ پھر سے چل پڑا۔ سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی کے تین مقاصد تھے۔ فارسی اور اردو میں تعلیم، انگریزی میں تعلیم اور تراجم۔ محمڈن اورینٹل کالج قائم کیا گیا ۔ جب سرسید لندن گئے تو وہاں انہوں نے اخبار دیکھ کر ہندوستان میں بھی اسی طرح کے اخبار جاری کرنے لیے سوچا اور لندن ہی میں اس کالوگو تیار کیا گیا اور جب واپس ہوئے تو انہوں یہاں پر تہذیب الاخلاق جیسا اخبار شائع کیا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے خطاب کا رخ غالب کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ عرفی شیرازی نے حافظ کو فارسی شاعری کا کعبۂ سخن قرار دیا تھا اور غالب بلا مبالغہ اردو کے کعبہ سخن ہیں۔ غالب کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی ہے۔ عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی غالب کی فارسی شاعری سے ناواقف رہے ہیں۔ غالب نے حمد و نعت و معراج نامہ لکھا جس پر ماہرین غالب نے توجہ نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ غالب مظلوم شاعر تھے۔ ان کی زندگی کسم پرسی میں گزری جبکہ سرسید کے حالات اچھے رہے۔ انہیں حکومت سے سر کا خطاب ملا، وکیل بنے اور ان کے بیٹے بھی جج کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔ نامور مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین پروگرام کے مہمانِ خصوصی تھے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرزا غالب جدید طنز و مزاح کے بادشاہ ہیں۔ مزاح نگاری کے لیے انسان کو ظریف ہی نہیں باظرف بھی ہونا چاہئے اور یقینا مرزا غالب باظرف انسان تھے۔ انہوں نے اپنا مضمون مرزا غالب کے خط کی پیروڈی سنایا۔ پروفیسرمحمد ظفرالدین ،صدر شعبۂ تر جمہ و ڈین ،اسکول آف لینگویجز، لینگوسٹکس اینڈ انڈولوجی مہمانِ اعزازی نے پرو وائس چانسلر اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ غالب اور سرسید دونوں ایک ہی عہد سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں نے مغربی ترقی کو خوش آمدید کہا۔ دونوں نے غدر کے حالات دیکھے اور دونوں نے نثر کو ایک نیا اسلوب دیا۔ ڈاکٹر شجاعت علی راشد، کنوینر پروگرام، ڈپٹی ڈائرکٹر سی پی ڈی یو ایم ٹی نے خیر مقدم کیا۔ ناظمِ لکچر ڈاکٹر نکہت جہاں، اسوسیئٹ پروفیسر ڈی ڈی ای نے کاروائی چلائی۔ حافظ محمد منیر، انسٹرکشنل میڈیا سنٹر کی قرأت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 546