donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aziz Ahsan
Title :
   Iqbal Ki Masnavi Ramooz Bekhudi Ka Pas Manzar Wa Pesh Manzar

 

اقبال کی مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ کا پس منظر و پیش منظر
 
ڈاکٹر عزیز احسن
 
اقبال کی فارسی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں انسان کی انفرادی شخصیت کے نشوو ارتقاء کے اصول و ضوابط پر گفتگو کی گئی ہے اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں حیاتِ اجتماعی کے اصول بتائے گئے ہیں۔ آج کی نشست میں ہم رموزِ بے خودی کے تخلیقی محرکات پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی حیاتِ اجتماعی سے متعلق تصورات… پس منظر
 
اقبال نے جس عہد میں آنکھ کھولی وہ بڑا پُرآشوب تھا۔ ہندوستان پر مغلوں کی پُرشکوہ حکومت کا سورج غروب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ مسلمانوں کے دل پر اس صدمے کا گہرا زخم تھا، لیکن اس کا علاج ان کے پاس نہیں تھا۔ سید احمد خان نے مسلمانوں کو زمانے کے ساتھ ہم قدم رہنے کی ترغیب دی تو روایتی اسلام کے شیدائیوں نے ان کی مخالفت کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھا۔ تاہم جدید تعلیم کے لیے سید احمد خان کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں اہلِ پنجاب پیش پیش رہے۔ اقبال جدید تعلیم سے تو لیس ہوئے لیکن ان کے دل و دماغ پر مسلمانوں کی زبوں حالی، ادبار اور زوال کو ٹالنے کی آرزو کا غلبہ تھا۔ سید احمد خان کی تحریک کے زیراثر مولانا الطاف حسین حالی کا مسدس منصۂ شہود پر آچکا تھا، جس میں مسلمانوں کو ان کی تاریخ کے درخشاں عہد سے آگاہ کرکے جگانے کی کوشش کی گئی تھی۔
 
تاریخ کے اس نازک دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان قوم کو انعام کے طور پر اقبال جیسا دانائے راز عطا فرمایا۔ اقبال نے اپنے عہد کو مغربی سامراج کی ریشہ دوانیوں اور مسلمانوں کی تن آسانیوں کے تناظر میں سمجھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس قوم کو مایوسی کے بھنور سے نکالنے کا عزم لے کر اپنی بصیرت اور علمی و ادبی صلاحیت کو قومی خدمت کے لیے وقف کردیا۔
 
’’رموز بے خودی‘‘ اپریل 1918ء میں منظرعام پر آئی۔ لیکن اس سے قبل اقبال ملّی درد کے اظہار کے لیے بہت سی نظمیں لکھ چکے تھے، جن میں ’شکوہ‘ (مطبوعہ، ’مخزن جون 1911ئ) اور ’جواب شکوہ‘ (مطبوعہ ’تمدن‘ دسمبر 1912ئ) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
 
اگر ہم اقبال کے ان افکار کا کھوج لگانا چاہیں جو قومی زندگی بالخصوص اسلامی حیاتِ اجتماعی کے ذیل میں وقتاً فوقتاً معرضِ اظہار میں آتے رہے تھے تو ہمیں سب سے پہلے اقبال کی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ (مطبوعہ 1903ئ) میں اقبال کی فکر کے اس رخ کو دیکھنا ہوگا۔ ممتاز حسن، علم الاقتصاد کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ اقبال نے
 
’’قومی تعلیم کو معاشی ترقی اور مکمل پیداوار کی افزائش کا لازمی وسیلہ قرار دیا ہے‘‘۔
دوسرا مسئلہ جو اقبال نے اہم سمجھا وہ
’’آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کا ہے‘‘۔
 
بعد ازاں مخزن کے اکتوبر، نومبر 1904ء کے شماروں میں اقبال کا مضمون ’’قومی زندگی‘‘ شائع ہوا جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں اجتماعی زندگی کو درپیش مشکلات کا ادراک مسلمانوں میں پیدا کرنے کی سعی فرمائی۔ علاوہ ازیں ان مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ علامہ نے حیوانی زندگی کا یہ رخ بھی بتایا کہ
’’ہر طبقے کے حیوان اپنے ہمسایہ طبقوں سے برسر پیکار رہتے ہیں اور اس کشمکشِ حیات میں کامیاب ہونے کے لیے ہر طبقۂ زندگی مصروف رہتا ہے، لیکن فتح صرف اسی طبقے کو حاصل ہوتی ہے جس میں رہنے کی قابلیت ہو، یعنی جس نے زندگی کے متغیر حالات کے ساتھ موافقت پیدا کرلی ہو‘‘۔
تمدن کے ارتقاء کے ضمن میں اقبال نے لکھا:
 
’’اگر ارتقائے تمدن و تہذیبِ انسان کو ایک درخت سے تعبیر کیا جائے تو مذہب اس کا پھل ہوگا، اور پھل بھی ایسا جس کا کھانا قومی زندگی کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسے پانی، ہوا اور غذا کا استعمال جسمانی بقا کے لیے لازم ہے‘‘۔
 
مذہب کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال نے خطبۂ علی گڑھ میں فرمایا تھا:
’’مذہب کا کام زندگی کے بارے میں سوچنا نہیں، اس کا اہم مقصد زندگی کے اعتلاء کی خاطر ایک مربوط عمرانی نظام پیش کرنا ہے۔ مذہب خود ایک مابعدالطبیعات ہے، یہ انسانی کردار کا ایک نیا معیار سامنے لاکر اس میں ڈھلنا چاہتا ہے اور اپنے دل خواہ نمونۂ عمل کو دنیا میں عالمی پیمانے پر پھیلانا چاہتا ہے‘‘۔
اپنے مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں اقبال نے اسلامی تمدن کی اصلاح کی تدبیر اختیار کرنے کا مشورہ ان الفاظ میں دیا تھا:
 
’’اس وقت ہمیں دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے، یعنی اصلاحِ تمدن اور تعلیمِ عام۔ مسلمانوں میں اصلاحِ تمدن کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوال ہے، کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہبِ اسلام کی عملی صورت کا نام ہے، اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصولِ مذہب سے جدا ہوسکتا ہو‘‘۔
 
اصلاحِ تمدن کے نکتے پر اقبال نے خطبۂ علی گڑھ میں بڑی اہم گفتگو فرمائی ہے، کہتے ہیں:
’’عقائد کی وحدت سے، جس پر ہماری قومی زندگی مبنی ہے، اسلامی تمدن کی یکسانیت کو تقویت ملتی ہے۔ اسلامی اصول پر ایمانِ محض اگرچہ بہت اہم ہے مگر ہے یہ ناکافی۔ قومی زندگی میں شریک ہونے کی غرض سے انفرادی ذہن کو مکمل تغیر سے دوچار ہونا چاہیے۔ بیرونی طور پر اسلامی ادارے اس تغیر کا موجب بنتے ہیں اور اندرونی طور پر اس تبدیلی کو وہ مشترک تمدن وجود میں لاتا ہے جسے ہمارے آباء و اجداد کی ذہنی قوت نے تخلیق کیا ہے‘‘۔
 
بقول پروفیسر ڈاکٹر شاہد کامران، اقبال نے اپنی عمرانی فکر کا مربوط و منظم نقشہ پہلی بار طلبہ علی گڑھ کے روبرو پیش کیا تھا۔ اس لیے رموز بے خودی کا فکری پس منظر جاننے کے لیے اقبال کے اس اہم خطبے کے کچھ نکات کا جائزہ لینا بھی سودمند ہوگا۔ اس خطبے میں اقبال نے درج ذیل تین نکات پر توجہ مبذول کرائی:
 
1۔ ملتِ اسلامیہ کا عمومی ڈھانچہ۔
2۔اسلامی تمدن کی یک رنگی۔
3۔ مسلمانوں کی قومی زندگی کے تسلسل کے لیے ناگزیر سیرت و کردار کا نمونہ۔
 
پہلے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال نے بتایا تھا کہ مسلمانوں کے تصورِ قومیت کی اساس اشتراکِ زبان، اشتراکِ وطن اور مشترکہ معاشی مفادات پر نہیں ہے، بلکہ اشتراک ِعقیدہ، تاریخی روایات کے اشتراک اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ معاشرے کے رکن ہونے کی بنا پر ہماری قومیت کی شناخت ہوتی ہے۔
دوسرے نکتے پر گفتگو کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رنگ، نسل و زبان کے اختلافات کو مٹاکر ملّتِ اسلامیہ انسانیت کے لیے ایک عالم گیر معاشرہ قائم کرنے کا تصور رکھتی ہے، اس لیے اسلامی تمدن بھی عالم گیر تمدن ہے۔
 
تیسرے نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے اقبال نے فرمایا ’’علم عمرانیات ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ قوموں کا اخلاقی تجربہ معین قوانین کے تابع ہوا کرتا ہے‘‘۔
 
اس ضمن میں اقبال نے انسانی سیرت و کردار کے دو نمونے تو ایسے بتائے جو بعد میں انتہائی غیر محتاط اور اسی لیے نقصان دہ ثابت ہوئے، جس میں سے ایک کی بنیاد ’’بہادری‘‘ پر تھی تو دوسرے کی بنیاد ’’آزاد خیالی، فیاضی اور اچھی دوست داری جیسے اوصاف‘‘ پر تھی… اقبال نے انسانی کردار کے تیسرے نمونے کو عظیم نمونہ قرار دیا جو ’’ضبطِ نفس‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اس نمونے کی جھلک اقبال نے ’’اورنگزیب عالم گیر‘‘ میں دیکھی۔ اقبال فرماتے ہیں:
 
’’سیرت و کردار کا وہ نمونہ یا تصور جس کی جھلک عالم گیر میں نظر آتی ہے، میرے نزدیک خالص اسلامی تصورِ سیرت و کردار کے عین مطابق ہے اور اسی نمونے کی ترویج و ترقی ہماری تعلیم و تربیت کا مقصد ہونی چاہیے‘‘۔
++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 903