donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Amanullah
Title :
   Ghalib Ke Jadeed Daur Ke Naqqad

غالب کے جدید دور کے نقاد

 

محمد امان اللہ

ریسر چ اسکالر

ایل۔این۔ایم۔یو، دربھنگہ

 

    جدید دور میں شمس الرحمن فاروقی ، گوپی چند نارنگ وغیرہ نے تنقید غالب میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب شعر، غیر شعر اور نثر میں مرزا غالب پر چار مضامین شامل کئے تھے۔ لیکن ان کا اصل کارنامہ ’’شعر شعور انگیز‘‘ کی چار جلدیں ہیں۔ جس میں پہلی جلد غالب اور میر کے تقابلی مطالعہ کے باب میں اہم ہے اور غالب ؔ کے تعلق سے کچھ کار آمد باتیں کچھ اس طرح سے بیان کی گئی ہیں:

’’غالبؔ اور میرؔ کی شعریات ایک طرح کی ہے لیکن وہ الگ الگ طرح کے شاعر اس لئے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے تخئیل کا مزاج مختلف تھا اور ان کی زبان مختلف تھی ۔ غالب کا تخئیل آسمانی اور باریک تھا، میر کا تخئیل زمینی اور بے لگام۔ غالبؔ نے اپنی شاعری کے لئے اس طرح کی زبان وضع کی جسے ادبی زبان کہا جاسکتا ہے۔ میرؔ نے روز مرہ کی زبان کو شاعری کی زبان بنادیا ۔ ‘‘
    (شمس الرحمن فاروقی ، شعر شور انگیز ، جلد اول ، صفحہ: ۳۵، اشاعت: پہلا ایڈیشن: ۱۹۹۰ئ، قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ، نئی دہلی)

    ظاہر ہے کہ یہ ایک بے نتیجہ گفتگو ہے اور تنقیدی کاٹ چھانٹ سے بھرپور ہے۔ اس قسم کی تنقیدی گفتگو سے شاعر کے کلام پر کوئی روشنی نہیں پڑتی، نہ مثبت نہ منفی ۔ فاروقی صاحب کی تنقید کا یہی عالم وہاں بھی ہے جہاں وہ ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں غالب کے تعلق سے اپنے چار مضامین میں کٹ حجتیاں کرتے ہیں ۔ شمس الرحمن فاروقی کی ایک کتاب ’’تفہیم غالب‘‘ کے نام سے ۱۹۸۹ء میں شائع ہوئی تھی لیکن یہ کتاب غالب کے کلام کی شرح پر مبنی ہے اور شروع تاآخر غالب کے منتخب اشعار کی تشریح و تاویل پیش کرتی ہے اس لئے راقم کو اس سے کچھ غرض نہیں۔

    پروفیسر شمیم حنفی کی ایک کتاب ’’غالب کی تخلیقی حسیت‘‘ کے نام سے ۲۰۰۵ء میں چھپ کر سامنے آئی۔ یہ کتاب تحقیقی انداز سے رقم کی گئی ہے اور غالب کا موازنہ نہ صرف ان کے ہمعصروں بلکہ پیش رووں سے بھی کیا گیا ہے ۔ جن شاعروں کو مختلف ابواب میں تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ان میں مرزا محمد رفیع سودا، خواجہ میر درد ، مصحفی ، میرتقی میرؔ، شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر کے نام اہم ہیں۔ چار مضمون پر تقسیم کی گئی اس کتاب میں ۲۱ ابواب ہیں اور انہیں ابواب میں تنقیدی مباحث کے نتیجہ میں شمیم حنفی کسی تنقیدی رائے کو پیش کر سکے ہیں۔ کتاب کے آخری باب ’’غالب کی حسیت سے ہمارا رشتہ‘‘ میں کچھ نئی اور کارآمد باتیں نظر آتی ہیں:

’’غالبؔ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جدید سائنس میں ایک عالم گیر طاقت بننے کی صلاحیت موجود ہے اور آنے والا زمانہ اس طاقت کے جنجال سے نکل نہیں سکے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ غالبؔ یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ سائنس کلچر کی بنیادوں میں اس ہند ایرانی ثقافت کی خرابی کا پہلو بھی موجود ہے جس کے سائے میں غالب کی شخصیت اور شعور کی تشکیل ہوئی تھی ۔‘‘

            (پروفیسر شمیم حنفی ، غالب کی تخلیقی حسیت، صفحہ : ۲۷۸، پبلشر غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی، اشاعت: ۲۰۰۵)

    آخر میں راقم پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مطبوعہ کتاب ’’غالب: معنی آفرینی ، جدلیاتی وضع ، شونیتا اور شعریات ‘‘ کے حوالے سے چند تنقیدی گفتگو کرکے یہ بات ختم کر دینا چاہتا ہے۔ گوپی چند نارنگ کی مذکورہ کتاب ان کے سالہا سال کے تنقیدی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ شونیتا ایک بودھی فکر ہے جس میں ہر ہر فکری رویہ، ہر مکتبہ خیال ، ہر نظریہ کی نفی نفی اور نفی کی جاتی ہے۔ بلکہ اس نقطۂ نظر کے تحت ہر رویہ اور فکر کورد اور صرف رد کرکے آگے بڑھا جاتا ہے۔ نارنگ صاحب نے شونیتا کی روشنی میں پایا کہ مرزا غالبؔ کا اردو کلام اور خاص کر نسخۂ حمیدیہ کا کلام ہر ہر رویہ ، نظریہ ، نظام اور آئینی زندگی کا رد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب نارنگ صاحب کو غالبؔ کے کلام میں یہ کلید مل گئی تو انہوں نے حالی کی کتاب یادگار سے اپنی گفتگو شروع کی اور آگے بڑھتے گئے۔ ان کے مباحث اتنے پھیل گئے کہ پوری کتاب 678صفحات پر مشتمل ہوکر سامنے آئی۔

    شعر ا گر صرف بیان بھر رہ جائے تو ا س کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی لیکن اگر شعر کے معنی پوری طرح بروئے کار لانے کے باوجود شعر میں کچھ بچا رہ جائے تو اسے ماورائے شعر کہتے ہیں اور اس ماورائے شعر کی تلاش میں نارنگ صاحب غالب کے کلام میں ڈبکی لگاتے ہیں اور لکھتے ہیں :(۱)’’بالعموم غالبؔ کو ہم وہاں ڈھونڈتے ہیں جہاں روشنی ہے۔ جہاں سب معلوم ہے۔ غالب شعریات میں سب کچھ روشنی میں ہوایسا نہیں ہے۔(صفحہ نمبر:۱۴)

(۲)’’حالی یہ تو کہتے ہیں کہ خیال نیا اور اچھوتا ہے ، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ غالب کے یہاں خیال نیا اور اچھوتا کیسے بنتا ہے یا غالب کے یہاں پہلے سے چلے آرہے مضمون سے نیا اور اچھوتا مضمون (مضمون آفرینی) یا معمولۂ خیال سے یکسر نیا خیال (خیال بندی ) یا اس کا کوئی اچھوتا ، ان دیکھا، انوکھا، نرالا، طلسماتی پہلوکیسے پیدا ہوتا ہے جو معنی کے عرصہ کو برقیادیتا ہے یا نئے معنی کی وہ چکا چوند پیدا کردیتا ہے جسے عرف عام میں سابقہ تنقید، طرفگیٔ خیال، یا ندرت  وجدتِ مضامین ، سے منسوب کرتی آتی ہے۔ ‘‘        (صفحہ نمبر:۱۶)

(۳)’ غالب کی ذہنی ساخت میں آخر ایسا کیا ہے کہ اگر اس میں سیدھی بات بھی داخل ہوتی ہے تو بل کھاتی ہوئی نکلتی ہے۔ ‘‘       (صفحہ نمبر: ۱۸)

(۴) ’’غالبؔ کئی بار اس مقام پر ملتے ہیں جہاں عام زبان میں گفتگو کرنا محال ہے یا جہاں آبگینہ تند ئی صہبا سے پگھلنے لگتا ہے ۔ عام زبان تعینات و ثنویت کی شکا ر ہے۔ غالبؔ اپنے ارضی احساسات و کیفیات کی واردات میں اس سے ماورا ہوجانا چاہتے ہیں، یعنی State of no mind بالخصوص نسخۂ حمیدیہ میں بہت سا کلام ایسا ہے او ربعد میں بھی جو کسی ایسے تجربہ کی تہہ لیتا ہے جو ذہن و شعور سے آگے کی بات ہے۔ عام زبان روز مرہ تجربے کی زمین پر بھی پوری طرح قادر نہیں ہوسکتی تو ذہن و شعور سے آگے کی بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ‘‘        (صفحہ: ۱۸

(۵)
 ’’ان کا (غالب کا) سب سے بڑا سرچشمۂ فیضان بودھی فکر (شونیتا) ہے جو بجنسیہ نہ تو مذہبی ہے نہ ماورائی ہے نہ یہ کوئی گیان دھیان یا مسلک یا عقیدہ ہے۔ یہ فقط فکر کا ایک پیرایہ یا سوچنے کا طور ہے۔ ہر ہر موقف ، ہر مظہر ، ہر عقیدہ ، ہر تصور کو رد کرنے کا یا اس کو پلٹ کر اس کے عقب میں دیکھنے کا ۔ چونکہ دکھائی دینے والی حقیقت فقط اتنی یا وہی نہیں ہے جو وہ نظر آتی ہے۔ ‘‘    (صفحہ: ۱۹

    یہ تمام اقتباسات نارنگ صاحب کی کتاب کے دیباچہ سے لئے گئے ہیں۔ دیباچہ ہی میں نارنگ صاحب نے پوری کتاب کا ایک طرح سے نچوڑ پیش کردیا ہے۔ مجھے یہاں کتاب کے مطالعہ کے نچوڑ کے طور پر صرف اتنا کہنا ہے کہ غالبؔ کے تعلق سے لکھی گئی اب تک کی سب سے بڑی کتاب ہے اور تنقیدی اعتبار سے سب پر فوقیت رکھتی ہے


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1025