donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Khalid Hussain Khan
Title :
   Maidane Fiction Ka Fahmida Funkar : Haneef Syed

میدانِ فِکشن کا فہمیدہ فن کار:حنیف سیّد


ڈاکٹرخالد حسین خاں

    دبستانِ شاہ جہاں پور کی یہ خوش طالعی ہے کہ اسے ابتدائی دورسے ہی کشاد ہ ذہن اور روشن فکرکے حاملِ اہلِ قلم کی ایک طویل کہکشاں میسررہی ہے ۔شاعری میں،دلؔ شاہ جہاںپوری،عابدؔمینائی، اصغرعلی خاںاصغر،پیارے میاںرشید،کوکبؔشاہ جہاںپور ی، مبارک شمیمؔؔ ،حبابؔ ترمذی،سحرؔشاہ جہاںپور ی،نسیم ؔشاہ جہاںپوری،باب ؔرشیدی، ساغرؔوارثی،تبسّمؔشاہ جہاںپوری،اخترؔشاہ جہاںپوری ،فصیح کمل۔میدانِ تحقیق وتنقید میں رشیدحسن خاں، قمرؔ رئیس،ابوسلمان شاہ جہاں پوری ، اخترؔ تلہری،خالد حسین خاں اور فِکشن نگاری میں، عبدالہادی خاں، خورشید ملک ،منظرانصاری وغیرہ کے نام نا می ا سمِ گرامی سے اگر کوئی فہرست مرتّب کی جائے تو ایک ضخیم کتاب وجود میںآ سکتی ہے، حنیف سیّد،اسی کشادہ ذہن ، روشن فکر اور عصری آگہی کے تسلسل وتثلیث کاایک اہم نام اور نمایاں دست خط ہے۔ جس کے دم ،قدم اور قلم نے میدانِ فِکشن میں نئے زاویے تلاشے،نئے زائچے تراشے اور نئے دائرے بنائے،اورفنِ افسافہ نگاری کو نئی جہت،نئی جست اور نئے خطوط پر استحکام بخشا۔

     حنیف سیّد ،گذشتہ تین عشروں تک، اپنے مولدقصبہ کانٹ کی نسبت سے ’’حنیف کانٹوی‘‘کے نام سے افسانے سپردتحریر کرتے رہے،پھرانھوں نے شہر کے سرکاری جونیر ہائی اسکول ،روٹی گودام ، بہادر گنج شاہ جہاں پور سے بحیثیت صدر مد رس سبک دوشی کے بعد آگرہ کواپناوطن ثانی بنالیا۔چوں کہ اُن کی جدید،نصف بہتر، کی صوفیوں کے خیل سے وابستگی کے باوصف ،حنیف سیّد کے دادا مرحوم بھی ایک صوفی تھے،اسی لیے ان کوبھی آگرہ میں قادریہ سلسلے کے ایک مزار کی خلافت عطا کی گئی ہے۔خلافت ملنے پرموصوف، اب حنیف سیّد کے نام سے افسانوی دنیا میں اپنی رنگارنگ نگار شات پیش کررہے ہیں۔اس طرح حنیف کانٹوی سے حنیف سیّد کاافسانوی سفر ۱۹۷۲ ؁ء سے اب تک جاری ہے۔بالفاظِ دِگر حنیف کانٹوی سے حنیف سیّدتک کاافسانوی سفر مختلف اظہارات، رجحانات، احساسات اور تجربات سے عبارت ہے ،اُن کی کہانیاں گان￿واور قصبوں کی پگ ڈنڈی سے بڑے شہروں کی شاہ راہ سے ہوتی ہوئی نچلے طبقے،متوسط طبقے اور اعلا طبقے کے لوگوں کے دلوں پر بھر پور اثر ہی نہیں،چاند ماری کرتی ہیںاور ارتعاش کے با وصف روشنی بھی بخشتی ہیں۔

    حنیف سیّد کی افسانہ نگاری پراظہارخیال کرنے سے قبل آئیے دیکھیں کہ افسانہ، کہانی یافِکشن کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟یا کیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس سوال کے جواب میں راقم مضمون کو شاعرِ شباب واِنقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی کا ایک واقعہ یاد آرہاہے،اسی واقعہ کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ جوشؔ ملیح آبادی کے نواسے نے ایک دن کھیلتے کھیلتے اچانک پوچھا:’’نانا۔۔! بچّے کہاں سے آتے ہیں۔۔۔؟‘‘جوشؔ ملیح آبادی یہ سن کر پہلے چونکے اور بچّے کی معصومیت کے مد نظر اسے یوں سمجھانے لگے:’’بچوں کوفرشتے لاتے ہیں،یہ آسمان پر پریوں کی گود میں کھیلا کرتے ہیں۔‘‘ وغیرہ ۔چند لمحوں تک نواسا،جوشؔ ملیح آبادی کو گھورتار ہا، پھراچانک بولا:’’نانا۔۔۔!صحیح بتائو۔۔!مجھے۔۔۔۔ نہ بنائو!‘‘دراصل کہانی کی پہلی خوبی تویہی ہونی چاہیے کہ افسانہ نگار کا کام صرف کہانی لکھنا ہے،البتہ وہ قاری کو بے وقوف نہ بنائے،جیسا کہ آج کل بیشترافسانہ نگاریافن کاربنارہے ہیں۔درحقیقت،کہانی میں اصل چیز تکنیک ہے،موضوع ومواداور دیگر لوازمات اس کے بعد آتے ہیں۔دوسرے یہ کہ موضوع کوئی بھی اہم نہیں ہوتا۔اہم ہوتا ہے برتنے کا فن۔موضوع کی افادیت اوراہمیت ہی تو فن کار کو لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔جب تک ’’بُنت ‘‘اور’’تکنیک ‘‘طاقت ور یا پُراثر نہیں ہوگی،اپیل نہیں کرے گی۔بہ طور مثال:’’پارٹیشن‘‘یابٹوارے پربے شمار کہانیاں لکھی گئیں، مگر ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کوجو مقام ومقبولیت حاصل ہے،وہ اور کسے ملی۔۔۔؟

    حنیف سیّدکی عقابی نگاہیں،بہت کچھ دیکھتی ،پرکھتی اورسمجھتی ہیںیعنی ان کی دور رس نظریںدشت وصحرابھی اورگل و گلزاربھی دیکھتی ہیں،چراغوں کااجالابھی،بجھے ہوئے دِیوں کادھواں بھی،شمعِ فروزاں کی روشنی بھی،موم بتّی کی مدھم لَوْ بھی،معاشقے کا مقصدو مطلب بھی،جنسی درندوں کا جنون بھی،ہوس کاروں کی بوالہوسی وبدمستی بھی،اورپاکیزہ رشتوں کی پامالی بھی۔۔۔۔۔۔۔!غرض کہ ان کے یہاں کانٹوںکی کسک اورگلوں کی مہک،چڑیوں کی چہچہاہٹ،طفل معصوم کی مسکراہٹ،عاشق ومعشوق کی بوکھلاہٹ،مال داروںکی چودھراہٹ، ناداروں کی تلملاہٹ،اَبلا ناری کی جھڑپ اور اَلہڑ نازنین کی تڑپ،سب کا اندازواحساس، قاری کوان کی کہانیوں کی ترسیل سے بہ خوبی وبہ آسانی ہو جاتاہے۔ انھوں نے نثر کے دائرے میں نئے نئے رنگ بھرے ہیں اور نو ع بہ نوع خوب صورت گل بوٹے کھلائے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی کہانیوں میں ہر طرح کا طرزِ نگارش،ان کی اسلوبیاتی، بوقلمونی کاواضح عکاس ہے۔

    ماہ نامہ ’’آجکل‘‘دہلی فروری۱۹۸۲؁ ء میں شائع’’ انسان‘‘ کااقتباس ملاحظہ فرمائیں:
    ’’ہے بڑا کمینہ ،دیکھونا۔!پنڈت جی اورمولاناجی سے بھِڑگیا،پوچھتا ہے:’’چاند اور سورج کامذہب بتائو۔؟اندھیرا اوراجالا کس مذہب کے ہیں۔؟رات اور دن کاکس مذہب سے تعلق ہے۔؟پیڑاور پودوں کامذہب بتائو۔؟خو د کوجلاکردوسروں کواجالادینے والی شمع کاکیا مذہب ہے ۔؟چرندوںپرندوں سے پوچھوکہ کس مذہب کے ہیں وہ۔؟تمھاراخو ن تم کوتمھارا مذہب بتاسکتاہے کیا۔۔۔۔۔۔۔؟اگر نہیں،تواپناالگ مذہب بنانے کاکیا حق ہے تم کو۔۔۔۔۔۔۔؟ بولو۔۔۔۔۔!جواب دو۔۔۔۔۔۔!‘‘

     ماہ نامہ ’’شمع ‘‘دہلی دسمبر۱۹۸۴؁ء میںشائع افسانہ’’چوراہا ‘‘میں حنیف سیّد ایک چابک دست فن کار کی طرح کہانی کاتانابانابنتے ہیں۔اُن کا ہر لفظ بولتا ہوا،اور ہرجملہ کششِ ثقل کی مانند قاری کواپنی جانب فی الفورکھینچ لیتا ہے۔ان کاہر اقتباس ایک گہری معنویت کاحا مل ہوتاہے۔ ان کی ہر کہانی جس خوب صورتی سے شروع ہوتی ہے،اسی خوب صورتی سے نقطۂ عروج پرپہنچ کر اختتام پذیرہوتی ہے۔اس کے با وصف حقیقت کوافسانے کا پیراہن عطا کرنااور جامۂ حقیقت بخشنے کافن وفسوں کوئی حنیف سیّد سے سیکھے۔انھوں نے اپنی زندگی کی سیّاحی میں ہررجحان ،ہر تحریک،ہراِزم اور ہرواقعہ نیز سانحہ کامطالعہ غیر جانب داری اورانصاف کی ترازوپررکھ کر کیاہے،اوراس کیفیت کواپنے افسانوں میں بڑی دل کشی سے پیش کیاہے۔’’چوراہا‘‘ زبان، تکنیک،ہئیت اوربیانیہ کی تمام صفات سے مزین ہے ، اس میں فرقہ وارانہ جنون،مذہبی منافرت،لسانی تعصب اور بھارتی تشدد کی عکاسی قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔اس نوع کی کہانیاں میرٹھ،ملیانہ،ممبئی،گجرات،بھاگل پور وغیرہ کے قیامت صغریٰ جیسے فسادات کی یادیں تازہ کردیتی ہیں۔اس قبیل کی کہانیاں ہندوستانی عوام کولذّت کام ودہن عطا کرنے کے ساتھ ساتھ غوروفکر کی دعوت بھی دیتی ہیں۔اسی افسانہ کے ایک اقتباس سے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں:

    ’’سڑک پر جا بہ جا لاشوں سے خون بہہ بہہ کرگلے مل رہا ہے،دو دریائوں کی مانند،کچھ لوگ نیم مردہ حالت میں چیخوں اور کراہوں کے ساتھ ہاتھ پان￿و پٹخ رہے ہیں، اور ایک دوسرے سے امداد کے خواہاں ہیں،حالاں کہ وہ الگ الگ مذاہب کے ہیں،لیکن اب انھوں نے ایک اور مذہب اختیار کر لیا ہے۔زخمیوں کامذہب،کراہنے کامذہب،ایک ساتھ مرنے کامذہب،ایک ہی طرح روح پرواز کرنے کامذہب،ایک ڈگر پر چلنے کامذہب ،ایک منزل پر پہنچنے کا مذہب،ایک جگہ رہنے کامذہب، ایک ساتھ رہنے کامذہب ، جہاںکوئی جھگڑا نہ ہو، جہاں کوئی نفرت نہ ہو۔‘‘

    ماہ نامہ’’شمع ‘‘دہلی جنوری۱۹۸۸؁ء میں شائع افسانہ ’’چابی‘‘ میں انھوں نے ہندوستانی معاشرے کے لاعلاج ناسوریعنی نئی نویلی ابلاناریوں کے جہیزکے سوداگروں کی جانب سے جلا کر مارڈالنے اوران کی غیر فطری اموات پرنہایت خوبی سے روشنی ڈالی ہے۔ آج کل یہ خیال عام ہے کہ عصرِجدیدکے تخلیق کاراپنے پیشروئوں کی مانندکلاسیکی زبان سے دورہوچکے ہیں اور وہ الفاظ کی سج دھج پرکوئی دھیان نہیں دیتے،حقیقت بھی یہی ہے کہ عہدحاضرکے افسانہ نگاروں کے یہاں سجیلا اسلوب یاد پارینہ بن چکاہے۔اس کے برخلاف حنیف سیّد کی دل پذیر تحریراور ان کاشگفتہ اسلوب،ان کے زبان وبیان پر دسترس کی دلیل ہے۔ بہ طور نمونہ ’’ چابی‘‘ سے یہ نثر پارہ ملاحظہ ہو:

    ’’ارے واہ۔!کون کہے گا،ایم۔ایس۔سی۔آپ کو۔۔۔۔؟‘‘ایک قہقہہ؛ نسوانی۔ جیسے :پھولوں سے لچکتی، شاخ۔جیسے: سہاگن کی چوڑیوں کی ،کھنک ۔جیسے: شیرخوار بچّے کی، کلکاری ۔جیسے :ہوا کے دوش پردِیے کی تھر تھراتی ،لَوْ۔بے اختیار،بے ساختہ؛بے باک!‘‘

    آگے ایک اقتباس اور دیکھیے:

    ’’یادرکھیے۔۔۔۔! اَگنی کے سات پھیرے پتنی کی آتما کوپتی کی آتما سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے توہرپتنی اپنے پتی کے ہراشارے کواپنی آتما کی آنکھ سے بھانپ لیتی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ وہ پتی کوبھگوان مانتے ہوئے،اُس کی ساری حر کتیں نظر اندازکردے۔‘‘

    ماہ نامہ انشاء کلکتہ نومبر۲۰۰۴؁ء میں شائع حنیف سیّدکاایک افسانہ ’’باغی روحیں ‘‘ میںدنیا کے ساتھ ساتھ عقبیٰ کی عرفان وآگہی کا مظہرہے۔کائنات کے خالقِ حقیقی کے رعب دبدبہ اور ملائکہ کے حواس باختگی کا مرقع ومنظر ہے۔عرش بریں کا احوال ہے،حجابی پردے کاذکرہے،خداے بزرگ وبرتر کی قہاری وجبّاری کی صفات کا بیان ہے،روحوں کی بغاوت کا منظر نامہ ہے،یہ تمام کیفیات،حنیف سیّدکی دین ودنیا سے مکمل آگہی،واقفیت اور شناسائی کی شاہد عادل ہیں،نیز ان کے مطالعے،مشاہدے کی بھی واشگاف عکاس ہیں۔ یہ نثرپارہ دیکھیے:

    ’’کرخت اور ہیبت ناک آواز،جس سے ساتوں طبق تھرّا گئے تھے۔ایسی بلند آواز آج تک نہ سنائی دی تھی کبھی۔جس سے فرشتوں کے حواس باختہ تھے، جیسے: قیامت آئی ہو۔ایک قہرہوا ہو نازل ،جس کا ردِ عمل فرشتوں میں صاف دکھائی دے رہاتھا،وہ سراسیمگی کی حالت میںاِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ باربارسجدوں میں گررہے تھے ۔ حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اُن کے معبودِ حقیقی کی آوازہے،اور اُنھیں بار گاہِ الہٰی میں طلب کیا گیا ہے،چوں کہ آواز میں بے انتہا طیش تھا،لہٰذااُس جبّاروقہّار کے روبہ رو پیش ہونے کی ہمت نہ تھی کسی میں۔ ‘‘

    ماہ نامہ ’’انشائ‘‘ کلکتہ نومبر ۲۰۰۵؁ء میں شائع ’’ تجدید؛سہاگ رات کی‘ ‘کے درج ذیل اقتباس میںحنیف سیّد نے نسوانی کردار کی زبان سے انسانیت کے مذاق ومزاج پرتسلیمہ نسرین کی زندگی پر کتنی ہنرمندی سے روشنی ڈالی ہے :

    ’’قدرت نے اپنے نظام کے مطابق ہی توہم سب کوزندگی کی حسین ترین لذّتوں سے محظوظ ہونے کے لیے پیداکیاہے۔کیامیں اُن لذّتوں سے محظوظ ہوئی ہوں۔۔۔؟ اگرنہیں ؛ تو کیوں۔۔؟شایدنظامِ قدرت سے بھٹک جانے کے باعث۔ مرچ، جب نمک کا کام کرنے لگے گی۔تونمک ہی کہلائے گی،مرچ نہیں۔مرچ کہلانے کے لیے اُس کومرچ ہی رہناپڑے گا۔مردبن کرملا کیامجھ کو ۔؟ تسلیمہ کوکیا ملا ۔۔۔؟بربادی ،تنہائی اوررسوائی۔مردکی پسلی سے پیداشدہ عورت کی زندگی مردکی آغوش ہی تو ہے۔ کاش میں عورت ہی رہی ہوتی ۔ کتنا تڑپی ہوں دنیا کی حسین ترین لذت وانبساط کے لیے  ۔۔۔؟‘‘

    اسی طرح ان کے ایک اور افسانے کا ذکر ناگزیر ہے،جواس مجموعے میں شامل نہیں ہے، جس کاعنوان’’برف؛ ٹھنڈے خون کی‘‘ہے ۔اس میں پریم چند، منٹو، احمد ندیم قاسمی اور بیدی کی طرح حنیف سیّد نے بھی مواداور موضوع،ماحول اور کردار کے عین مطابق وہی زبان استعمال کی ہے جیساکہ کردار ہے۔بہ طورنمونہ اِس افسانے کا یہ نثر پارہ ملاحظہ ہو:

    ’’اور یہ چوڑیاں بھی تو اُتار۔۔۔!‘‘راجو نے پھر ٹوکا۔
    ’’سہاگ کی ہیں یہ۔یہ نہیں اتاری جاتیں۔‘‘ رجنی نے بحث کے انجام سے لرز کراس کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’ارے اُتار دے سالی۔۔!اُتار دے۔‘‘
    ’’نہیں، میں نہیں اُتاروں گی اپنے سہاگ کو۔‘‘ رجنی اُس کے جسم کو بڑے پیارسے سہلاتے ہوئے چمٹ گئی۔

    ’’ یہ ٹوٹ جائیں گی۔‘‘اُس نے رجنی کو بھینچا۔
    ’’یہ تو ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں؛جانم۔‘‘رجنی تڑپی۔
    ’’کھون نکل آئے گا ہاتھوں میں۔‘‘وہ بھی بے تاب ہوگیا۔

    ’’نکل آنے دو۔‘‘وہ بھی محبت کے نشے میں لہرائی،اور بے تاب ہو کر ہونٹوں سے ہونٹ ملا دِیے۔اس سے پیشتر کہ کسی لذّت سے آشنا ہوتی:پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے راجو کا طوفان برف ہو گیا۔ بالکل برف، پتھر کا۔ جہاں کا تہاں۔ساری کائنات جم گئی ہوجیسے۔

    اِس افسانے کی قرأت سے ہمارا ذہن منٹو کے افسانے ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘کی جانب منتقل ہوجاتاہے ۔منٹو کا کردار بھی اپنے بے جان ،بے حِس وحرکت شکار کوٹھنڈا محسوس کرکے برف کی طرح ساکت وجامدمجسمے کی طرح بے جان ہو جاتا ہے۔نیز اُس کا جوش، جنوں،ہوس اور ہوش سب یک بارگی فالج زدہ ہوجاتے ہیں۔اُسی طرح حنیف سیّد کے مذکورہ افسانے کا کردارراجو بھی چوڑیوں کی کھنک سُن کرٹھنڈا پڑجاتاہے اور رجنی کے تمام انچھروں،ادائوں، ناز،نخروں اور تمام کوششوں کے باوجووہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، اور کسی نوع کے وصل کی لذّت ولطف اٹھانے سے محروم رہتا ہے ۔یہاں پرحنیف سیّد نے منٹو سے بھی ایک جُدابات کہی ہے۔ منٹو کا کردارکھانا ٹھنڈا اورناقص ہونے کی وجہ سے نہ کھاسکا۔مگر حنیف سیّد کے کردار کا کھانالذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ خوب گرم تھا۔ان کا کرداراپنے ذہن میں اُٹھنے والے زلزلوں کے سبب تازہ کھانے سے محروم رہا ۔اِس کے علاوہ حنیف سیّدکے افسانے میں ایک جدّت یہ بھی ہے کہ مرد کاخون جب تک گرم تھا، تواُس کی بیوی اپنے بھائی کا قتل، زمانے کی رسوائی،شوہر کی بد کلامی کے جملے وغیرہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے شوہرکے قدموں میں پڑی گالیاںسنتی رہی اور جب مرد کا گرم خون برف محسوس ہوا اُس کو، تو وہی ناگن بن گئی ۔بالفاظِ دِگر مرد کا خون جب تک گرم تھا ،تب تک تو وہ شیر تھا اور جب اُس کا خون برف ہو گیا تو وہی مرد خودبہ خودگیدڑسے بھی زیادہ لاغر ہو گیا۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

    ’’سہاگ رات میںآج پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے ،راجو کا ذہن غسل خانے والے واقعہ میں پہنچ کر یخ ہو گیا۔پھر تورجنی محبت کے نشے سے لے کر، بے حیائی،بے شرمی کی آگ سے راجو کو پگھلانے کی کوشش کے ساتھ، رات بھرجھنجوڑنے کے باوجود مانندِماہی ِبے آب ریت پر تڑپتی رہی ،جب راجو ٹس سے مس نہ ہوا، تواُس نے اپنے ہاتھ زمین پر پٹک کر سہاگ کی چوڑیاں توڑ کر کلائیاں لہو لہان کیں،کپڑے پہنے اور راجوکوگالیاں دیتی ہوئی گھر سے نکل گئی،مگر راجو برف سا پڑا رہا۔ جیسے :بائک کے کلچ کاٹوٹاتار،جیسے: نمبرپھٹانوٹ،جیسے :کمرٹوٹاشیر،جیسے :پانی پڑا پٹاخا،جیسے: بھبوکے کی راکھ ۔ جیسے :فیوز بلب۔ جیسے: چٹخا گھڑا۔جیسے: پھٹا غُبّارا۔‘‘

    ایوانِ اردوفروری ۲۰۰۹ ؁ء میںشائع’’ پنچھی ؛جہازکا‘‘ افسانہ کاایک چھوٹا سا نثرپارہ دیکھیے کہ دودھ کی ڈیری والوں پر کس طرح چوٹ کی ہے :

    ’’اُن بے چاریوںکے اِنجکشن توپہلے ہی ٹھونس دیاجاتاہے،اوردود ھ پتلا ہو کر خودبہ خوداُترآتاہے،اورایک ایک بوند نچوڑلیاجاتاہے،یہاں تک کہ بچّے بے چارے تڑپ تڑپ کرمرجاتے ہیں۔‘‘

    ’’ تم پھرجھوٹ بولے۔‘‘
    ’’وہ کیا۔۔۔۔؟‘‘

    ’’میں نے سامنے کی ڈیری میں کوئی بچہ تڑپ کرمرتے نہیں دیکھا۔اُ ن بے چاروں میں تڑپنے کی سکت ہی کہاں رہتی ہے چمپو۔۔۔۔؟‘‘

    درجِ بالاجملے سے لگتا ہے جیسے حنیف سیّد اُس بھینس کے بھوک سے مرنے والے بچّے کی رُوح تک پہنچ گئے ہوں۔

     ماہ نامہ ’’روشنی‘‘ امریکہ فروری۲۰۰۶؁ء کا ایک افسانہ’’چمچے؛ اسٹیل کے ‘‘میں حنیف سیّد کے ذہن کی درّاکی ملاحظہ ہو:

     ’’بس اُسی دِن سے سمجھ گیا کہ دنیا پاگل ہے اورجاہل بھی۔اِس کواتنا تک نہیں معلوم کہ ہنڈرڈ پرسینٹ جیون ہے سورج پر۔ اگرہم سمندرمیں نہ اُترے ہوتے، تو کیا تصور کر سکتے تھے کہ پانی کے اندربھی جیون ہوسکتاہے اوراگرپانی کے اندرجیون ہوسکتاہے تو آگ میں کیوں نہیں؟ یعنی کہ سورج میں ،اورپھر لغت چیخ چیخ کرکہتاہے کہ آتش پرستوں کے آتش کدوں میں چوہوں جیسی شکل کے کیڑے پائے جاتے ہیں،جن کو سمندرکہتے ہیں، جو صرف آگ کھاتے ہیں،اورآگ سے باہرنکلنے پرمرجاتے ہیں،اِس کے متعلق حالیؔ نے بھی کہاہے   ؎

آگ سے جب ہواسمندر دور
اُس کے جینے کا پھر نہیں مقدور

    جب اُن چھوٹے چھوٹے آتش کدوں میں سمندرہیں توسورج میں توکروڑوں برسوںسے آگ دہک رہی ہے۔وہاں نہ جانے کتنے طرح کے جیودھاری ہوںگے اور آکسیجن توہے ہی وہاں۔کیوں کہ آکسیجن کے بِناآگ ہوناممکن نہیںاور آکسیجن ہے جہاں، جیون ہے وہاں۔‘‘

     حنیف سیّد کی نثر،کہیں شاعرانہ توکہیں شاطرانہ اور کہیں ساحرانہ اور دل ربایانہ محسوس ہوتی ہے۔ا س کے برخلاف کہیںفلسفیانہ، حکیمانہ اور کہیں باغیانہ۔۔۔!اس میں نمکینی ، رنگینی اورسنگینی کی صفاتِ ثلاثہ وہ اپنے طنزیہ ومزاحیہ اسلوب اور روزمرّہ کی زبان،محاوروں اور تشبیہوں کے حوالے سے اِس طرح کرتے ہیں کہ قاری کبھی آہ، کبھی واہ، کہیں چاہ، کہیں مسرّت ،کہیں بصیرت،کہیں لذّت اور کہیں جِنس وجنون میں مست وبے خود ہوجاتاہے۔

    حنیف سیّد،جذبہ واحساس کے افسانہ نگارہیں۔احساس اور جذبہ کی شدّت، بالعموم قلم کارکوشاعرانہ اسلوب عطا کرتی ہے،موصوف کوبھی اس سے مفر نہیں۔وہ نثر میں شاعری کرتے ہیں۔اُن کے بیشترافسانے زبان کی شگفتگی، لفظوں کے انتخاب اوراُن کوحسن وسلیقہ سے برتنے کی اچھی مثالیں ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اُن کے بیشتر افسانے نثری نظم معلوم ہوتے ہیں، گویا اُن کے افسانوں کے نین ونقش رسیلے ہیں،تیکھے ہیں اور توجہ طلب ہیں،وہ جذبے کی تپش سے لفظوں کو گرم موم کی طرح نرم کردیتے ہیں۔

     بہ ہرنوع ۔۔!حنیف سیّد کے نام وکام کی دھمک ودھوم اورولولہ وغلغلہ بہت پہلے سے ہے۔ میری نظرسے اُن کانام وکام کبھی اوجھل نہیں رہا۔کان آشنا تھے، دل ودماغ سرشار تھے۔البتہ،حنیف سیّدفِکشن کے میدان میںبھیڑکا حصہ نہیں بنے ہیں،بل کہ وہ بھیڑمیں اکیلے اورالگ راہ کے راہی ہیں،وہ احساس کے موتیوں کواظہارکے ریشمی دھاگے میں پرو کرجب کہانیاں سپردقلم کرتے ہیں،توقاری اُن کے افسانوی فسوں میں محصورہوجاتاہے۔۔!

    حنیف سیّد ٖ کے اکثرافسانے تحقیقی تب وتاب سے دلوں میں حرارت اورکچھ افسانے اپنی کشش اورتپش کے سبب دلوں میں حلاوت بھی پیداکردیتے ہیں۔اکیسویں صدی کے اولیں دہے میں بھی دیگرافسانہ نگاروں کے اژدہام میںحنیف سیّدکی افسانوی صدااورادا دورسے پہچانی جاتی ہے۔اُن کے افسانوی طرزمیں جوبرجستگی،خستگی اوردل بستگی ہے،جوبے ساختہ پن ہے،جوبے محاباپن ہے،جوکہانی پن ہے،وہ قاری کے دل پربھر پور وارکرتا ہے۔اُن کے جملوں میں طنزوکنایہ،رمزواشارہ بھی خوب لطف ولذّت پیدا کرتا ہے، جیسا کہ ماقبل رقم کیاگیا ۔وہ سدا زودگوئی کے برخلاف،کم نویسی پرعمل پیرارہے ہیں۔اسی لیے وہ عصری مسائل،بشری خصائل اورعشقیہ مراحل پرخوب سوچ سمجھ کرلکھتے ہیں، البتہ اُن کے یہاں صنف نازک کے جسم،جنس،جبلّت،جذبہ،جوش اورجنون سے کچھ زیادہ ہی رغبت اورالفت نظر آتی ہے۔اِس ذیل میں یہ منٹو،عصمت چغتائی اورواجدہ تبسّم جیسے قبیلے کے قلم کاروں کے ہم دوش،ہم خیال معلوم ہوتے ہیں۔

    حنیف سیّد کواپنے فن پر،اپنی فکرپراوراپنے قلم پربھرپوراعتمادبھی ہے اور اعتقاد بھی۔اُن کے جملوں کی دروبست ،ساخت،پرداخت اتنی دل کُشاہے کہ قاری اُن کے اسلوب کے سحرمیں مست وبے خودہوجاتاہے،یعنی مختصر،مربوط،منضبط،گہرائی وگیرائی سے بھرپور!اُن کااختصاراورارتکازاُن کی خوبی بھی ہے اوراُن کی طاقت بھی۔البتہ کہیں کہیں تلذّز،تکلف اورآدم حوا کے جسمانی وصل کا والہانہ،عاشقانہ اورقدرے عامیانہ اظہار،سنجیدہ وبالیدہ اورفہمیدہ قاری کوبارِخاطرضرورمحسوس ہوتا ہے۔

     حنیف سیّدکے افسانوںکی تکنیک بنیادی طورپربیانیہ ہے،اظہاربیان کی صفائی ، ماجرا سازی اورکردارنگاری کادروبست ،تہہ درتہہ زندگی ،زمانہ، زر،زمین کاعرفان اور اُس  سے گہری وابستگی کارجحان حنیف سیّدکی تخلیقی ہیّت کی نمایاں پہچان ہے ۔

    حنیف سیّدکاایک اورافسانہ ’’بویا پیڑ ببول کا‘‘ جو میں نے پڑھا ہے لیکن وہ بھی اس مجموعے میں شامل نہیں ہے ،اپنی تھیم ،تِھنکنگ،تازہ کاری ،توانائی اور تجسّس کے اعتبار سے لائق ِذکر وفکر ہے ،اس پورے افسانے میں حنیف سیّد نے آج کی سیاسی اور معاشی حالات کی عکاسی ہی نہیں کی بل کہ اُس کے بنیادی کردارگان￿و کامفلوک الحال راموکا،رامو سے منتری رام اَوتار بننے کااحوال نرالے ڈھنگ سے بیان کیا ہے ،حنیف سیّد کے بیشتر افسانوں میں دل آساطرزنگارش کے وسیلے سے مدلّل،مبسوط،مضبوط،رنگارنگ واقعات کی منظر کشی خوب ہی نہیں ،بہت خوب ہے ۔اس کے علاوہ اُن کے بیشترافسانے، اندھیرے کے جگنو جیسے ہیں،جوخود ذراسی روشنی بکھیر کر،تاریکی پر فتح وکامرانی حاصل کرلیتے ہیں۔اُن کے افسانے،سوچ کو نئی کروٹ ،ہونٹوں کومسکراہٹ اور دلوں کواُکساہٹ سے ہم کنار کر دیتے ہیں،بالفاظ ِدِگر اُن کے یہاں تخلیقی بانجھ پن نہیں،ترسیلی اور ترتیلی نیا پن ہے۔اُن کے مختلف افسانوں کاتأثر،اوراق کی سطح سے گزر کرقاری کے دل کی طرف راست سفر کرتا ہے۔

    حنیف سیّد کے افسانے اپنے طرز کی جاذبیت، موسیقی دل کشی اور دل آسائی سے زمینی حقائق کی گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر مقامات پر خوشی وغم کے فرغل میں لپٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔اُن کے افسانوں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اُن کا مشاہدہ عمیق ہے اور اُن کے افسانوں کا بہائو قاری کو بے ساختہ حقائق تک پہنچادیتاہے ،بل کہ اُس کے ذہن میںایک نئی حیرت جگا دیتاہے۔چوں کہ حنیف سیّدایک سیمابی اورسیلانی مزاج و مذاق سے مُتَّصِف قلم کارہیں ،اِس لیے اُن کے افسانے بھی ہمہ رنگی ہیں۔

    حنیف سیّد کاذہن نصابی نہیں ،انتخابی ہے۔اُن کے افسانوی اسلوب میں اثر بھی ہے اورکیفِ سحر بھی۔اُنھوں نے کہانی لکھتے وقت فِکشن کے جملہ ترکیبی تلازمات کو پیش نگاہ رکھاہے۔اُن کی کہانیاںسیاسی، سماجی،مذہبی،صنفی ،جنسی اور جرائم ،جدل وعدل تمام حقائق وحقانیت سے قارئیں کوروشناس کراتی ہیں۔اُن کابنیادی محورو مرکزاورتصور ، حقیقت نگاری ہے۔موصوف فیکٹ کوفِکشن میں بدلنے کے ہنر سے بہ خوبی آشناہیں۔

    حنیف سیّداپنی کہانیوں میںاستعارات وتشبیہات کی بے جابھرمار نہیں کرتے، بل کہ سادہ وسلیس،سہل ونفیس انداز میںاحساس کی ترسیل کرتے ہیں۔حنیف سیّدکے جذبے کی شدّت،احساس کی حدّت اور اظہار کی قوّت کااندازہ اُن کی کہانیوں کے بالا ستیعاب مطالعے سے لگایا جاسکتاہے۔دراصل وہی کہانیاں کامیاب کہلاتی ہیں ،جن سے قارئین کے داخلی وجدان میں تحریک اور شعورمیں ارتعاش پیداہوتاہے۔بے جا بقراطیت اور بے نہایت علمیت کی نمایش سے گریز اور اجتناب کے روّیے نے اُن کے اسلوب کوتاثیر بھی عطا کی اور توانائی بھی بخشی۔دِل کشی بھی اور دل آسائی بھی۔

    گرچہ حنیف سیّدکبھی گم نام افسانہ نگار نہ رہے ،تاہم اُن کے مسلسل شائع ہونے والے افسانے اُنھیں شہرت وشہامت کے بامِ عروج کی طرف بتدریج لے جارہے ہیں، اب اُن کی شناخت پختہ کار اور منفردافسانہ نگار کے طور پرمستحکم ہوچکی ہے۔حنیف سیّد سکوت وسکون سے’’ زمین کے اوپر کام،زمین کے نیچے آرام‘‘ یا’’ کام کرتے جائو اور صلے اور ستایش کی تمنانہ کرو ‘‘کے اصول پر عرصہ سے کار بندرہے ہیں۔

    نہ معلوم کیوںاردو ناقدوں اور ادیبوں کی اکثریت،اپنی معصومیت یامرعوبیت  کے سبب،اس خیال پر آج بھی اصرار کرتی ہے کہ اردوافسانوی ادب کے اہم ستون پریم چند، راجندر سنگھ بیدی اور منٹو ہی ہیں۔بقیہ افسانہ نویس اُن کے مقلّد یا پیروکار۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ افسانے کے سوتے اب خشک ہوچکے ہیں۔جب کہ اصلیت اس کے عین برعکس ہے یعنی آج افسانوی ادب میںبہار ہی بہار ہے ۔حنیف سیّد کے افسانے اسی ’’بہاریہ‘‘زمرے میں آتے ہیں۔حنیف سیّدنے اپنے ماحول،معاشرے کے نت نئے رویّوں اور بدلتی تصویر کے خال وخد کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔اُن کی زندگی کے سفرنے اُنھیں پہلے حسّاس، پھر کہانی شناس اور اُس کے بعد کہانی نویس بنایا ہے۔

    فن کار ایک نوع کا جادو گرہوتاہے،اوروہ اپنے فن میں جادوگری نیز فسوں آفرینی پیدا کرنے کے لیے بے حدو حساب جدوجہد کرتاہے۔ فن میں مہارت حاصل کرنا، اُس کی تشکیلی عمل میں پیہم لگے رہنا،اُس کی دیوانگی اوراُس کاذوق وشوق ہوتاہے۔حنیف سیّدنے اِس گرکواچھی طرح جان لیا ہے ۔

    حنیف سیّدعمر کے آخری پڑاومیں بھی ایسے متحرک،مستعد،منہمک،فعا ل اور فہمیدہ فن کار ہیں جو ستاروں پر کمندڈالنے اور کہکشائوں کوتسخیر کرنے کے جذبوں سے مالامال ہیں،اسی لیے وہ انسان اور کائنات کاروزانہ نئے زاویے سے اپنے افسانوں کاخمیر تیار کرتے ہیں،اور اُسی کی روشنی میں وہ اپنی کہانیوں کے حوالے سے انسانی مسائل ومعاملات کاحل بھی تلاش کرتے ہیں۔

    حنیف سیّد کے افسانے پڑھ کر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اُنھوں نے مختلف علوم کوپڑھا ہے۔نیز مختلف النوع مذاہب،رنگ ونسل ،ذات پات اورجُداجُدا کردار کے حامل انسانوں کابھی بہ غور مطالعہ کیا ہے کیوں کہ اُن کے بیشتر افسانوں میں عصری زندگی کے نشیب وفراز،قول وفعل میں تضاد،ماسک لگے چہروں کابہروپ،سیاسی سوداگروں کاسیاہ روپ،عزت وامارات تفاوت،قدم قدم پربرپاہونے والے تلخ وشیریںتجربات، بوالہوسوں،بدکاروں،ابلاناریوں سفید پوش بھیڑیوں کی نقش گری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک اچھااور سچا فن کار وہی ہوتا ہے ،جواپنے فن سے نہایت محبت کرتاہو، تخلیقی عمل کواپناایک فریضہ جان کرانجام دیتاہو۔حنیف سیّدایک ایسے ہی اچھے ،سچے،سنجیدہ ،فہمیدہ اور بالیدہ فن کاراور مخلص افسانہ نگارہیں،جو آج کے دورِ کشاکش کے ہر انسان کے ہر رویّے کو اپنی افسانوی نظر کے مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں،اور کسی ماہر ِنقّاش یا کسی چابک دست مصور کی طرح صفحۂ قرطاس پر لفظوں کے برش اور محسوسات کے  ہفت رنگوں سے مصوری کافریضہ ادا کردیتے ہیں۔یہ خوبی یہ کشف،یہ کرامت اور یہ طلسم ،حنیف سیّد کو بہ فضلِ ربّی خوب ملے ہیں۔

    مزید برآں! حنیف سیّد کوکہانیاں لکھنے کے ساتھ شہرت کے تعاقب میںبھاگنے کاہنر نہیں آتا، یا پھر بے نیازی اُن کی سَدِّ راہ بنتی ہے،ورنہ وہ آج افسانوی دنیا کے مسند شہرت پر متمکن ہوتے۔بہ ہر کیف محنت ومشقّت،ریاضت ورغبت،اور ہمّت وحوصلہ کاصلہ و ثمر،دیر،سویر،ہر فن کار کو ضرور ملتا ہے،سو اُن کوبھی اپنی محنت ومہارت نیز عرق ریزی کاصلہ و شہرت و افرمقدار میںملے گااور وہ فِکشن نگاروںکی کہکشاں میں نمایاں مقام پر متمکن ہوں گے ۔

    اِس قلند رصفت،کم گو،گوشہ گیر،پُرتاثیرقلم کاراور گدازقلب فن کار،جینئوین فِکشن نگار کو دل میں جگہ دینااوردماغ میں چسپاںکرنا،میرے خیال میں،قارئین وناقدین پر واجب ہے، کیوں کہ اُنھوں نے اپنے افسانوں میں ہر نوع کا سامان ِفرحت بخش اس فراوانی سے بھرا ہے کہ ہمیں اُن کی کہانیوںکے مطالعہ سے ساون کا مزہ،گلشن کی ہوا،جھیلوں کی ادا، جھرنوں کی صدا،نغموں کی فضا،الفت کا نشاں،رغبت کا بیاں،نسبت کا جہاں، را حت کا سماں،فرحت کازماں،شفقت کااماں،جنت کا گماںاور راحت کا مکاں جیسی فرحت بخش اور سرور آگیں کیفیات اور طلسماتی واردات کاایک منظرِ بے کراں نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

    بہ ہر نوع۔۔۔!فن ِافسانہ کے فہمیدہ پارکھ اوربالیدہ ناقد،حنیف سیّد کے افسانوں کانہ صرف غیر جانب داری سے تجزیہ کریں گے بل کہ ایک نہ ایک دن اُن کے مرتبہ ومقام کا فراخ دلی سے اعتراف اور استقبال کرنے کے لیے بھی اُن کو مجبور ہونا پڑے گا۔

    آج کے عہدآبنوسی میں حنیف سیّداپنے منفرد اسلوب کی مخصوص انفرادیت کو برقرار رکھنے کے ساتھ فکروفن کے نہایت شہادت انگیز پہلوئوں کوقاری کے رو بہ رواُجاگر کر رہے ہیں،وہ کسی باک وخطر کے بغیرآج کے روا،ناروامسائل کومتنوع تراکیب کے سانچوں میں ڈھال کرفنی رچاواور فکری سبھاوسے پیش کررہے ہیں،لیکن بغض وعناد،تعصب وتکبرکے اِس دور ِپُرفتن کے بازار میں سچے موتی اور لعل بدخشاں کے پارکھ ہیں ہی کتنے۔۔۔۔؟

    بحیثیت مجموعی ،میرے خیال سے زیادہ لکھنا کوئی کمال نہیں،اچھالکھناکمال ہے۔ایک قلم کاروفن کار کی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ کسی دوسرے تخلیق کار کی تقلید نہ کرے،اپنا اسلوب اپنا اسٹائل خود دریافت کرے۔ حنیف سیّداپنے اسٹائل میں لکھتے ہیں،اور عوام کے لیے لکھتے ہیں،اُن کے افسانوں سے عوامی جذبات کی نمائندگی ہوتی ہے،وہ کہانی کہنے کے فن سے بہ خوبی شناسا ہیں۔وہ تخیل کی وادیوں میں بھٹکنے کے بجاے حقائق کی چٹانوں سے افسانے کی گنگا جمنابہانے والے افسانہ نگار ہیں۔اُن کی فکر، فرزانگی اور فراست کی تثلیث،افسانے میں توازن قائم رکھتی ہے، اُنھوں نے سدا حقائق کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے کی بھر پور کاوش کی ہے۔زندگی اورزمانے کی کڑوی ،کسیلی اور تلخ ،ترش سچائیوں سے اُنھوں نے اپنے افسانوں کا مواد ومتن تیار کیا ہے۔اُن کا امتیاز یہ ہے کہ اُنھوں نے افسانے کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت ومحبوبیت کی صحیح معنوں میں بازیافت کی ہے۔اُنھوں نے اپنے پیش روافسانہ نگاروںکی طرح عوام کا رشتہ افسانے،اور افسانے کارشتہ عوام سے استوار کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔سوزِدروں کے سمندروں میں اُتر کرسیپیاں چننے کا ہنر ہر فن کار کو نہیں آتا۔دردوداغ جب قلم کار کے دل سے ہو کرفِکشن کی رگ وپے میں سرایت کرتا ہے تو فن پارے کو زبان میسر آجاتی ہے،اور فن پارہ جب بولنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ ہر عامل وعاقل،ہرعالم وعامی،نروناری،ناقد وقاری اورعوام وخواص سب کوبے طرح اور بے نہایت اپنی جانب مائل ومتوجہ کرلیتا ہے۔اُن کے افسانے اِس نوع ونوعیت کی خوبیوں سے پوری طرح مُتَّصِف وممتاز ہیں۔اپنے زمانے اور اپنے ماحول کی صداقتیں،جس قلم کار کے قابو میں آجائیںاور وہ اُنھیں بہترین الفاظ اوردلکش اسلوب میں قرطاس پراُتار بھی سکے،میرے خیال میں،وہ بڑافن کاراورقلم کارہوسکتا ہے۔حنیف سیّد ایسے ہی ایک خوش بخت افسانہ نگار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اِس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا کہ صداقتیں، حقیقتیں اورحکایتیں کس کے قابو میں تھیں؟ میں حنیف سیّد کے افسانوی فکروفن اوراُن کے ڈِکشن کے بارے میں مطمئن ومسرورہوں۔ بہ قول ِشاعر   ؎

 جب بھی دیکھا ہے تجھے،عالمِ نودیکھاہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا۔

٭٭٭٭٭


 شاستری نگر، میرٹھ۔

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 814