donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Yusuf Raheem Bedari
Title :
   Aaj Ki Sham Aik Be Wafa Ke Naam


آج کی شام ، ایک بے وفا کے نام


 محمد یوسف رحیم بیدری ، بیدر ۔ کرناٹک

 

 

    فرصت کے لمحے بڑے بیزار گزررہے ہیں۔ ہروقت کسی خوشگوار لمحے کا انتظارہے۔ ہر آہٹ پر نظر دوڑا رہی ہوں کہ شاید وہ آیا ہو لیکن یہاں تو گھٹاٹوپ اندھیر ا چھایا ہواہے بالکل میرے دل کی طرح ۔ ہرطرف اندھیرا ہے، ڈراؤنی اماوس کی رات ہے۔ اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ بارش کے آثار ہیں نہیں شاید بارش شروع ہوئی ہے۔ اللہ توبہ ایسی خطرناک بارش شاید آج کی رات ہی زندگی کی آخری رات ہوگی ۔ میں نے گھر کے تمام دروازے بندکردئے اور بستر پر آگئی مگر نیند کہاں ۔ ارے لائٹ بھی چلی گئی ۔ اللہ توبہ اب تو ڈر کے مارے کپکپی طاری ہوگئی ۔ میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگنے لگی تھی کہ شاید اسی رات کانام قیامت ہے اور آج ہی میری زندگی کی آخری رات ہے۔ لیکن تب ہی لائٹ آگئی۔ میں نے اللہ کاشکراداکیا اور اپنے دل پر لگائے گئے قفل کو کھول کر دل کے دروازوں کے ذریعہ ماضی کے دور میں چلی گئی۔

    میں یعنی ماہین صدیقی میٹر کی اسٹوڈنٹ تھی ۔ شوق وچنچل ، کسی بات میں سنجیدگی نہیں ۔ بچوں میں ہروقت اودھم مچاتی ، کسی کام کوہاتھ نہیں لگاتی تھی ۔ ہنستی کھلکھلاتی ہرطرف خوشبوبکھیرتی میری زندگی ایک رفتار سے جارہی تھی کہ اک انہونی ہوگئی ۔ پڑوس کے گھر ایک تقریب میں شاہ زیب آفریدی نے مجھے دیکھا ، پسندکیا۔ اور اپنی کسی عزیز کے ذریعہ پرپوزل بھیجاکیونکہ ان کے والدین بچپن میں ہی حادثہ کا شکار ہوگئے تھے۔ اور وہ اکیلے برسرروزگار تھے ۔ اُن کاامپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا اسلئے اماں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اور وہ اس رشتے پر پھولے نہیں سمارہی تھیں لیکن ابا نے اعتراض کیا کیونکہ میں اُن کی لاڈلی اکلوتی اولادتھی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں کھیلنے کودنے کی عمر میں شادی کے جھمیلے میں پڑوں ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اماں نے ابّا کی ایک نہ چلنے دی اور جھٹ منگنی کردی ۔ نہ میری مرضی پوچھی گئی ، نہ پسند ، نہ اس وقت میں نے خیال کیاکہ میری پسند پوچھتے ، میںمنگنی کے بعد بھی اسی طرح ہنستی کھیلتی رہی ۔ میں انٹر میں تھی مجھے پڑھنے کا خاص شوق تھا۔ پھر ذہین رہنے کی وجہ سے ہروقت کلاس میں سکنڈ تھرڈ پوزیشن آجاتی تھی ۔ شاہ زیب آفریدی نے شادی کی جلدی مچائی تو میں پریشان ہوگئی ۔ اماں ہروقت نصیحت کرتی رہتی تھیں کہ تمہیں دوسرے گھر جانا ہے ایسا کرو، ایسا نہ کرو، اور میں خاموشی سے ہروقت یہی سوچتی کہ پتہ نہیں وہ کیسے ہوں گے اور میں وہاں اس گھر میں اکیلی کیسے رہوں گی ۔ میں ان ہی سوچوں میں گھری ہوئی تھی ۔ اماں میرا بہت خیال رکھ رہی تھیں ۔ ارے تم اس طرح خاموش کیوں ہوگئی ہو ، بات کرو اور کچھ کام میں ہاتھ بٹاؤ۔ میں اکیلی آخر کتنا کروں گی ۔ اماں ہروقت کہتی رہتی تھی ۔ دیکھتے دیکھتے میری شادی کے دن قریب آگئے ۔ اور میں ماہین صدیقی سے ماہین آفریدی بنادی گئی ۔ سب کا کہناتھاکہ میراحسن دلہن بن کر دوآتشہ ہوگیاہے۔ چند سہیلیوں نے مجھے تیار کیا اور جب میں اسٹیج پر بٹھائی گئی تو حیااور حسن نے مل کر ایسا جادو کیا بس دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ اور میں امّاں اور ابّا کی دعاؤں تلے شاہ زیب آفریدی کے چھوٹے سے کرائے کے مکان میں داخل ہوئی ۔ نہ میرے کچھ خواب تھے اور نہ ڈر خوف تھا بلکہ ملال تھاکہ میں خود تیار ہوکر اجڑنے کے لئے جارہی ہوں ۔ لڑکی کی بھی کیا زندگی ہے ؟ جس گھر میں پیدا ہوئی جن ماں باپ نے پرورش کی انہیں چھوڑ کر کسی اور گھر میں جاکررہناپڑتاہے۔ میں ان سونچوں سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہ تو اللہ کابنایا ہوانظام ہے ۔ میں اس کمرہ کاجائزہ لے رہی تھی کہ قدموں کی آہٹ ہوئی اور میں گھونگھٹ سید ھا کرکے بیٹھ گئی ۔


    شاہ زیب آفریدی آہستہ آہستہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوئے اور مجھے گھبراہٹ ہونے لگی ۔ وہ قریب آئے اور مجھے ’ماہ‘ کہہ کر مخاطب ہوئے اور گھونگھٹ الٹ دیا۔ میں اپنے آپ میں سمٹ گئی ۔ شاہ زیب میرے حسن کے قصیدے پڑھ رہے تھے ، مجھ سے وعدے کررہے تھے اور انہوں نے مجھے اتنی محبت دی کہ میں ان کی محبت میں کھوگئی۔ صبح تک میں یہ بھول گئی کہ شاہ زیب کے ملنے سے پہلے میرے خیالات کیا تھے اور میں کیا سونچتی تھی ۔ مگر اب ایسا لگ رہا تھاکہ میرے روم روم میں شاہ زیب کی محبت بسی ہوئی تھی ۔ شاہ زیب میرا بہت خیال رکھتے تھے ۔ دن بہت اچھے گزر رہے تھے۔ ہردن عید اور ہررات شب برأت لگ رہی تھی ۔ میں ان مسرور دنوں میں بے حدخوش تھی ۔

    ابھی شادی کو 15دن ہی ہوئے تھے کہ امی اور ابا ہمارے ایک دور کے عزیز کے پاس شادی میں گئے اور واپس ان کی لاشیں آئیں ۔ ان کا بہت ہی خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا۔ میری تو بری حالت تھی ۔ امی ابا کا آخری دیدار بھی نہ کرسکی کیونکہ خبر سن کر جو بے ہوش ہوئی تو دودن بعد ہوش آیا۔ اب میرا شاہ زیب کے سوائے کوئی نہیں تھا۔ ایسے مشکل وقت میں شاہ زیب کی محبت کا ہی سہارا تھا۔ اور اسی سہارے کے ذریعہ سنبھلتی چلی گئی ۔ اور اپنا گھر سنبھالنے لگی ۔

    ہماری شادی کو 6مہینے ہوگئے تھے ، ایک دن شاہ زیب نے کہاکہ انہیں کام سے ممبئی جانا ہے اور وہ اپنے کپڑے اور ضروری کاغذات سوٹ کیس میں لے کر چلے گئے۔ دودن میں آنے کا کہہ کر گئے تھے مگر وہ دودن ابھی نہیں ہوئے۔ اور وہ کبھی واپس نہیں آئے مجھے ان کا انتظار ہے ۔ہروقت ہر لمحہ انتظار کرتی رہتی ہوں ۔ گھر بھی کرایے کا تھا۔ گھر میں میرے جہیز کے علاوہ شاہ زیب کا کوئی سامان ، پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اور نہ ہی میرے پاس ان کا یا اُن کے کسی رشتہ دار کا کوئی ایڈرس تھا۔ میں تو تپتی ریت میں کھڑی تھی ۔ میرا تو یہ حال تھاکہ ’’اگرچھت گررہاہوتو آسمان کے نیچے آکر ٹہریں اور اگر آسمان ہی گر رہاہوتو۔۔۔‘‘میںکیاکروں ۔ کہاجاؤں۔ مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ اور D.edکی ٹریننگ حاصل کی ۔ اپنا تمام زیور تعلیم کے حصول کے لئے فروخت کردیا۔ اور آج میں ایک گورنمنٹ اسکول کی ٹیچر ہوں ۔ آج شاہ زیب کو گئے دس سال بیت گئے ہیں ۔ اب بھی مجھے ان کا انتظار ہے ۔شایدوہ آجائیں گے ۔ ہر آہٹ پر مجھے ایسالگتاہے کہ وہ آئے مگر ایسا نہیں ہے۔

    ’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ فجر کی اذان کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میں چونک گئی ۔ دیکھا کہ میراتکیہ آنسوؤں سے تر ہے۔ اور میں ساری رات جاگتی رہی ہوں ۔ اک ایسے انسان کے لئے جس نے ساری عمر ساتھ نبھانے کاکہہ کر بیچ منجدھار میں ساتھ چھوڑ دیا۔ میں اُسے بددعا تو نہیں دوں گی شاید میرے نصیب میں ہی یہ لکھاتھا ۔ وہی ہوا ہے ۔ میں ہروقت یہ سونچتی ہوں کہ میں اُس بے وفا کے بارے میں سونچ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کروں گی لیکن ہرشام اُس بے وفا کے نام ہوجاتی ہے۔ ٭

(یو این این)

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 913