donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mozaffar Ahsan Rahmani
Title :
   Dilli Election : Khoon To Khoon Hai Tapkega To Jam Jayega

دلی الیکشن : خون تو خون ہے ٹپکے  گا تو جم جائیگا


 مظفراحسن رحمانی

استاذ: دارالعلوم سبیل الفلاح جالے دربھنگہ*امام وخطیب جالے جامع مسجد


عام آدمی پارٹی کی کامیابی تاریخی ثابت ہوئی۔آج سے قبل ایسی بڑی کامیابی کسی سیاسی پارٹی کو حاصل نہیں ہوئی تھی اور یہ کامیابی سیکولرزم کی کامیابی ہے ، بی جے پی اتنی بڑ ی ناکامی کا منہ دیکھے گی اس کا تصور بھی نہیں کیاگیا تھا ، مہاراشٹر، ہریانہ، ج?ارک?نڈ، اورجموں  کشمیر کی کامیابی سے ایسا محسوس کیا جارہا ت?ا کہ دہلی میں بھی بی جے پی یرقانی پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگی۔

عام آدمی پارٹی کی کامیابی میں جہاں دیگر سماجی  ،مذہبی لوگوں اور صحافتی برادری کا تعاون رہا وہیں سب سے زیادہ کیجریوال کو مسلمانوں کا ساتھ ملا، وہ مسلمان جو آزادی کے بعد سے لگاتار کانگریس کے ساتھ رہے ، جس نے آستین کا سانپ بن کر مظلوم مسلمانوں کو تعلیمی ، ثقافتی، سیاسی، سماجی ، معاشی، اعتبار سے ڈس کر پوری دنیا میں بے آبرو کرنے کی کوشش میں کوئی کسرنہیں چھوڑا، مسلم نوجوان نسلوں پر غلط الزامات لگاکر سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا  جو آج بھی سسکیوں اور امید کی ایک کرن کے سہارے اپنی زندگی کی لو تیز کئے ہوئی ہے کہ شاید زندگی میں کوئی تو ہوگا جو ہماری  فریاد سنے گا، اسی تلاش میں ایک لمبی عمر مسلمان نسلوں کی گذر گئی ،  گولیوں نے سینے کو چھید کیا ، انتظامیہ  کے ذریعہ ظلم کیا گیا ، ہندوستان کی سب سے قدیم اور تاریخی بابری مسجد کو متنازعہ بنانے کے ساتھ تالا کھلوانے سے لے کر شہید کروانے تک پورا تعاون دیا ، اور  یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جسے ہندوستان نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس کے علاوہ دیگر ایسے بہت سے واقعات ہیں جو دل کی بستی میں کہرام مچاتا رہتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ’’خون تو خون ہے ٹپکے  گا تو جم جائیگا‘‘۔

ظلم کی بے شمار ایسی کہا نیاں ہیں جو آزادی کے بعد سے آج تک مظلوم مسلمانوں پر کیا گیا ، شاید اس کا تصور ہمارے اسلاف نے کبھی نہیں کیا ہوگا کہ ہماری قربانیوں کا انعام ہماری آنے والی نسلوں کو اس طرح دیا جائے گا،  کانگریس کے ساتھ اب تک مسلمانوں کو اس بات نے مجبور کیا تھا کہ اس کا مناسب نعم البدل نہیں مل رہا ت?ا ،اناہزارے نے بدعنوانی کے خلاف بی جے پی کے اشارے پر ایک تحریک کا آغاز کیا تاکہ  کانگریس کو حکومت سے بے دخل کیا جاسکے ، اسی تحریک کے بطن سے ایک فولادی ،کام کا د?نی ،عزم کا پکا اورمضبوط قوت ارادی کا مالک اروند کیجریوال  پیدا ہوا جس نے عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی اور گذشتہ الیکشن میں مسلمانوں نے ڈرتے ہوئے ووٹ کیا جس کی وجہ سے بڑی اکثریت میں آنے سے یہ پارٹی چوک  گئی اور کانگریس کے ہی تعاون سے 49/ دنوں تک کیجریوال وزیر اعلیٰ رہ سکے ، ٹھیک ایک سال کے بعد جب  دوبارہ الیکشن ہوا تو مسلمانوں نے تمام پارٹیوں کو نظر انداز کرتے ہو ئے پوری دانشمندی کے ساتھ کیجریوال کو ووٹ کیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے، اس کی کامیابی کا ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کو یہ سوچ کر ووٹ کیا ت?ا کہ ہماری نسلوں کو کام ملے گا ، کالا دھن واپس آئیگا ، بدعنوانی ختم ہو گی ، پورا ملک گجرات ماڈل کے نقش قدم پر چل کر جے جے کار کریگا، لیکن 8/ ماہ کے گذر نے کے باوجود ایسا کچھ بھی  نہیں ہوا ، کوئی ترقیاتی کام نہ ہوتا دیکھ  عوام مایوس ہوچکی تھی ، ترقی کی  بجائے بعض دریدہ دہن وہ لیڈران جس نے کبھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کا سلوک نہیں کیا تھا نے ایسی زہر میں گھولتی باتیں کہنی شروع کی جس سے پورے ملک کی فضا مکدر ہوگئی ، بعض نے کہا مسجدوں میں مورتیاں رکھنے کا وقت آگیا ہے ، ہندو عورتوں کو دس بچہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو پاکستان جانا چاہئے ، گوڈسے کی مندر بنانی چاہئے ، نوٹوں پر گاندھی کی    بجائے گوڈسے کی تصویر ہونی چاہیئے ، بہو لاؤبیٹی بچاؤ،اورلوجہادجیسے نعرے دیے، یہ وہ باتیں ہیں جس سے پورا سیکولر ملک زخمی ہوگیا اور نتیجتاً بی جے پی کو شرمناک ہار سے دوچار ہونا پڑا ، ملک کو اس وقت ضرورت تھی کہ اس کے مسائل حل کئے جاتے، مہنگاء کو لگام دیا جاتا ، دلی ایک ایسی بستی کا نام ہے جہاں پورے ملک سے آکر لوگ  بسے ہوئے ہیں ،اور 80/فیصد لوگ وہ ہیں جو اوسط درجے کی کمائی سے اپنی زندگی گذارتے ہیں ،جنہیں روزانہ خوردنی اشیائ￿  خرید نی پڑتی ہے، آلو، پیاز ، چاول، دال ، ساگ ، سبزیوں، سے واسطہ پڑتا ہے ، لیکن یہاں کوئی بدلاؤنہیں آیا،تعلیم یافتہ اورباشعور رائے دہندگان نے سرے سے ہی خارج کردیا ، اس کا اندازہ کہ پارٹی ہار جائے گی ،بی جے پی چانکیہ امت شاہ نے پہلے ہی محسوس کرلیاتھا، اور اسی احساس نے انا تحریک سے کرن بیدی کو اس امید کے ساتھ لایا تھا کہ شاید کرن کی روشنی کچھ کام کرجا ئے لیکن ساری تدبیریں الٹی ثابت ہوئی،اورناکامی ایسی کہ شاید صدیوں آنسو ں بہائے پ?رب?ی خشک نہ ہو ،دوسری طرف ایک نوزائیدہ اور نوآزمودہ پارٹی کو ایسی کامیابی ملی کہ شاید تاریخ نے ایسی کامیابی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔

’’عام ا?دمی پارٹی‘‘ کی کامیابی میں صحافتی برادری نے خوب کرداراداکئے ، جس میں "بصیرت"گروپ نہایت ہی فعال نظر آیا،ہرروز نئی خبروں اور سیاسی تجزیہ کے ساتھ اہم صحافیوں کو پیش کرتے رہے ، اس صف میں دو چند نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ کئے بغیر شاید دلی کی جیت ادھوری ہوگی، بڑے اور بور?ے  نہایت ہی تجربہ کار صحافی حفیظ نعمانی ،جو ایسی عمر میں داخل ہوگئے ہیں جہاں لوگ خود کو ت?کا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن قلم میں آج بھی وہی زندگی ہے جو کسی کو بھی زندگی بخش سکتا ہے ، اشہر ہاشمی ، نوجوان صحافی مولانا شمس تبریز قاسمی ، نایاب حسن قاسمی ، مولانا غفران ساجد قاسمی، یہ وہ نام ہیں جس نے دلی الیکشن کے پل پل کی خبروں سے واقف کرانے  ساتھ بیباک صحافت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور یہ سچ ہے کہ اردو صحافت نے اس وقت اس کام کو انجام دیا جو آزادی سیقبل "الہلال" جیسے اخبارات نے انجام دیئے تھے ، آپ سب کو "عاپ" کی کامیابی اور بے مثال کامیابی مبارک ہو۔

(یو این این)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 408